Tag: WORLD DOWN SYNDROME DAY

  • بچوں کو اپنا نشانہ بنانے والا لاعلاج مرض

    بچوں کو اپنا نشانہ بنانے والا لاعلاج مرض

    آج دنیا بھر میں ڈاؤن سنڈروم کا دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد جینیاتی نقص کے باعث پیدا ہونے والی اس ذہنی اور جسمانی معذوری کے حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہے۔

    ڈاؤن سنڈروم ایک سنگین جینیاتی نقص ہے اور اس کا شکار بچوں میں ذہنی اور جسمانی معذوری مختلف شدت کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔

    ڈاؤن سنڈروم کو ٹریزومی 21 بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک سنگین جینیاتی نقص ہوتا ہے اور ایسے بچے میں 21 ویں کروموسومز تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب نئی زندگی بننے کے وقت خلیات میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔ یہ خرابی کیوں پیدا ہوتی ہے، ماہرین اس کی وجہ اور علاج تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    اس بیماری کا شکار بچوں میں ذہنی اور جسمانی معذوری مختلف شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ اس کی ظاہری علامت یہ ہوتی ہے کہ بچے کی گردن عام بچوں سے کہیں زیادہ موٹی اور سر بڑا ہوتا ہے۔ مرض کے شکار بچوں کی آنکھیں بھی بہت باہر کو نکلی ہوتی ہیں اور ان کا چہرہ گول ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش سے قبل دوران حمل ماں کے پیٹ میں ہی بچے کے اندر ٹریزومی 21 کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ حمل کے سولہویں ہفتے ہی میں بتا دیتی ہے کہ بچہ نارمل ہے یا ڈاؤن سنڈروم کا شکار۔

    بہت سے کیسز میں یہ بچے قبل از پیدائش یا ولادت کے بعد جلد ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس سنڈروم کے ساتھ پیدا ہونے والے افراد طویل عمر بھی جیتے ہیں لیکن شدید معذوریوں کے ساتھ۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر 1 ہزار میں سے 1 بچہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی خاتون 35 برس کی عمر کے بعد حاملہ ہوتی ہے اس وقت بچے کے ڈاؤن سنڈرم کا شکار ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    پاکستان میں ڈاؤن سنڈروم کی مریضوں کی تعداد کا درست تعین نہیں کیا جاسکا، تاہم یہ مرض پاکستان میں موجود ہے۔ ملک میں مختلف ادارے اس مرض کا شکار افراد اور ان کے اہل خانہ کو مدد اور خدمات فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار بچے عام طور سے بہت خوش طبع ہوتے ہیں۔ ان کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے، جس میں وہ مگن رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی زبان میں لکنت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی توجہ کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عام بچوں کی طرح مختلف دلچسپیاں نہیں رکھتے بلکہ اپنی توجہ بہت ہی کم چیزوں پر مرکوز رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچے 2، 3 سال کی عمر میں ہی لکھنا پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

    ایسے بچوں کی عام اسکول میں تربیت اس لیے مشکل ہوتی ہے کیونکہ اساتذہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان بچوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کس طرح ابھارا جائے۔

    طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار افراد معذوری کے باوجود قدرت کی دیگر صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں جن کی بدولت ڈاؤن سنڈروم کے شکار مریض بھی معاشرے میں ایک باعزت زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

  • ڈاؤن سنڈروم: ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار بنانے والا جینیاتی نقص

    ڈاؤن سنڈروم: ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار بنانے والا جینیاتی نقص

    جینیاتی نقص کے باعث پیدا ہونے والی ذہنی اور جسمانی معذوری کے حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے لیے آج دنیا بھر میں ڈاؤن سنڈروم ڈے منایا جارہا ہے۔

    ڈاؤن سنڈروم ایک سنگین جینیاتی نقص ہے اور اس کا شکار بچوں میں ذہنی اور جسمانی معذوری مختلف شدت کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔

    ڈاؤن سنڈروم کیا ہے؟

    ڈاؤن سنڈروم کو ٹریزومی 21 بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک سنگین جینیاتی نقص ہوتا ہے اور ایسے بچے میں 21 ویں کروموسومز تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب نئی زندگی بننے کے وقت خلیات میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔ یہ خرابی کیوں پیدا ہوتی ہے، ماہرین اس کی وجہ اور علاج تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    اس بیماری کا شکار بچوں میں ذہنی اور جسمانی معذوری مختلف شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ اس کی ظاہری علامت یہ ہوتی ہے کہ بچے کی گردن عام بچوں سے کہیں زیادہ موٹی اور سر بڑا ہوتا ہے۔ مرض کے شکار بچوں کی آنکھیں بھی بہت باہر کو نکلی ہوتی ہیں اور ان کا چہرہ گول ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش سے قبل دوران حمل ماں کے پیٹ میں ہی بچے کے اندر ٹریزومی 21 کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ حمل کے سولہویں ہفتے ہی میں بتا دیتی ہے کہ بچہ نارمل ہے یا ڈاؤن سنڈروم کا شکار۔

    بہت سے کیسز میں یہ بچے قبل از پیدائش یا ولادت کے بعد جلد ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس سنڈروم کے ساتھ پیدا ہونے والے افراد طویل عمر بھی جیتے ہیں لیکن شدید معذوریوں کے ساتھ۔

    ایک عام مرض؟

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر 1 ہزار میں سے 1 بچہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی خاتون 35 برس کی عمر کے بعد حاملہ ہوتی ہے اس وقت بچے کے ڈاؤن سنڈرم کا شکار ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    پاکستان میں ڈاؤن سنڈروم

    پاکستان میں ڈاؤن سنڈروم کی مریضوں کی تعداد کا درست تعین نہیں کیا جاسکا، تاہم یہ مرض پاکستان میں موجود ہے۔

    ملک میں مختلف ادارے اس مرض کا شکار افراد اور ان کے اہل خانہ کو مدد اور خدمات فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

    مریض کا رویہ

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور سے یہ افراد بہت خوش طبع ہوتے ہیں۔ ان کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے، جس میں وہ مگن رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی زبان میں لکنت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی توجہ کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عام بچوں کی طرح مختلف دلچسپیاں نہیں رکھتے بلکہ اپنی توجہ بہت ہی کم چیزوں پر مرکوز رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچے 3، 2 سال کی عمر میں ہی لکھنا پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

    ایسے بچوں کی عام اسکول میں تربیت اس لیے مشکل ہوتی ہے کیونکہ اساتذہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان بچوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کس طرح ابھارا جائے۔

    طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار افراد معذوری کے باوجود قدرت کی دیگر صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں جن کی بدولت ڈاؤن سنڈروم کے شکار مریض بھی معاشرے میں ایک باعزت زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

  • ڈاؤن سینڈروم سے آگاہی کے لیے مؤثر مہم چلانے کی ضرورت ہے‘ عثمان بزدار

    ڈاؤن سینڈروم سے آگاہی کے لیے مؤثر مہم چلانے کی ضرورت ہے‘ عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان کا کہنا ہے کہ ڈاؤن سینڈروم کے مرض میں مبتلا بچے معاشرے کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈاؤن سینڈروم کے مرض سے آگاہی کےعالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ ڈاؤن سینڈروم کے مرض میں مبتلا بچے خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ڈاؤن سینڈروم کے مرض میں مبتلا بچے معاشرے کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں، ڈاؤن سینڈروم کے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ ڈاؤن سینڈروم کے مرض کے شکار بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے تسلسل کے ساتھ اقدامات کرنا ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت ڈاؤن سینڈروم کے شکار بچوں کی بحالی اور نگہداشت کے لیے جامع پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ یہ دن منانے کا مقصد ڈاؤن سینڈروم کا شکار بچوں کے معاشی وسماجی حقوق سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔

    واضح رہے کہ ذہنی اور جسمانی طور پرمعذور بچوں کے حوالے سے معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے آج دنیا بھر میں ڈاؤن سینڈروم ڈے منایا جا رہا ہے۔

    ڈاؤن سینڈروم ایک ایسی بیماری ہے جس میں بچہ پیدائشی طور پردماغی اور جسمانی بیماری کا شکار ہوتا ہے۔

  • ڈاؤن سنڈروم: لاعلاج اور نا معلوم جینیاتی نقص

    ڈاؤن سنڈروم: لاعلاج اور نا معلوم جینیاتی نقص

    جینیاتی نقص کے باعث پیدا ہونے والی ذہنی اور جسمانی معذوری کے حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے لیے آج دنیا بھر میں ڈاؤن سنڈروم ڈے منایا جارہا ہے۔


    ڈاؤن سنڈروم کیا ہے؟

    ڈاؤن سنڈروم کو ٹریزومی 21 بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک سنگین جینیاتی نقص ہوتا ہے اور ایسے بچے میں 21 ویں کروموسومز تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب نئی زندگی بننے کے وقت خلیات میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔ یہ خرابی کیوں پیدا ہوتی ہے، ماہرین اس کی وجہ اور علاج تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    down-syndrome-2

    اس بیماری کا شکار بچوں میں ذہنی اور جسمانی معذوری مختلف شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ اس کی ظاہری علامت یہ ہوتی ہے کہ بچے کی گردن عام بچوں سے کہیں زیادہ موٹی اور سر بڑا ہوتا ہے۔ مرض کے شکار بچوں کی آنکھیں بھی بہت باہر کو نکلی ہوتی ہیں اور ان کا چہرہ گول ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش سے قبل دوران حمل ماں کے پیٹ میں ہی بچے کے اندر ٹریزومی 21 کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ حمل کے سولہویں ہفتے ہی میں بتا دیتی ہے کہ بچہ نارمل ہے یا ڈاؤن سنڈروم کا شکار۔

    بہت سے کیسز میں یہ بچے قبل از پیدائش یا ولادت کے بعد جلد ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس سنڈروم کے ساتھ پیدا ہونے والے افراد طویل عمر بھی جیتے ہیں لیکن شدید معذوریوں کے ساتھ۔


    ایک عام مرض؟

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر 1 ہزار میں سے 1 بچہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی خاتون 35 برس کی عمر کے بعد حاملہ ہوتی ہے اس وقت بچے کے ڈاؤن سنڈرم کا شکار ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔


    پاکستان میں ڈاؤن سنڈروم

    پاکستان میں ڈاؤن سنڈروم کی مریضوں کی تعداد کا درست تعین نہیں کیا جاسکا، تاہم یہ مرض پاکستان میں موجود ہے۔

    ملک میں مختلف ادارے اس مرض کا شکار افراد اور ان کے اہل خانہ کو مدد اور خدمات فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔


    مریض کا رویہ

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور سے یہ افراد بہت خوش طبع ہوتے ہیں۔ ان کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے، جس میں وہ مگن رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی زبان میں لکنت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی توجہ کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عام بچوں کی طرح مختلف دلچسپیاں نہیں رکھتے بلکہ اپنی توجہ بہت ہی کم چیزوں پر مرکوز رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچے 3، 2 سال کی عمر میں ہی لکھنا پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

    down-syndrome-4

    down-syndrome-3

    ایسے بچوں کی عام اسکول میں تربیت اس لیے مشکل ہوتی ہے کیونکہ اساتذہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان بچوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کس طرح ابھارا جائے۔

    طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار افراد معذوری کے باوجود قدرت کی دیگر صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں جن کی بدولت ڈاؤن سنڈروم کے شکار مریض بھی معاشرے میں ایک باعزت زندگی بسر کر سکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔