Tag: World Elephant Day

  • ہاتھیوں کا عالمی دن: سفید سونا جس نے ہاتھیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی

    ہاتھیوں کا عالمی دن: سفید سونا جس نے ہاتھیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی

    اردو زبان میں ایک کہاوت ہے، ہاتھی زندہ ہو تو لاکھ کا، مرا ہوا ہو تو سوا لاکھ کا۔ یہ جملہ عموماً کسی انسان، مقام یا شے کی قدر و قیمت کو ظاہر کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، لیکن ہاتھی کے پاس ایسا کیا ہے جس نے اسے اس قدر بیش قیمت جانور بنا دیا ہے؟

    ہاتھی کو یہ دولت اس کے لمبے دانتوں کی صورت میں حاصل ہے، ہاتھی دانت جسے سفید سونا بھی کہا جاتا ہے دنیا کی بیش قیمت ترین دھاتوں میں سے ایک ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

    اور اسی قیمتی دولت نے ہاتھی کی نسل کو خطرات لاحق کردیے۔

    ہاتھیوں کی حفاظت کے بارے میں آگاہی کے لیے آج 12 اگست کو ہاتھی کا دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 2012 میں کیا گیا۔

    ہاتھی دانت جسے زیورات، مجسمے اور آرائشی اشیا بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے، خوبصورت اور شفاف ہونے کی وجہ سے نہایت مہنگا ہے اور دولت مند افراد اسے منہ مانگے داموں خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

    براعظم افریقہ ہاتھی دانت کی فراہمی کا اہم مرکز رہا جہاں غربت اور ہاتھیوں کی بہتات کی وجہ سے ہاتھی دانت کی خرید و فروخت سہل ترین کاروبار بنتی چلی گئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہاتھیوں کی تعداد خطرناک حد تک گھٹ گئی۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق صرف ایک صدی قبل افریقہ میں 1 کروڑ جبکہ ایشیا میں 1 لاکھ ہاتھی موجود تھے، لیکن اب ان کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہوچکی ہے۔

    سال 2021 تک جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اب صرف 5 لاکھ ہاتھی ہی بچے ہیں جن میں سے 4 لاکھ 15 ہزار ہاتھی افریقہ اور تقریباً 40 ہزار ایشیا میں موجود ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت ہاتھیوں کی بقا کے لیے شدید خطرہ بن گئی تھی اور یہ نہ صرف ہاتھیوں کی نسل کو ختم کر سکتی تھی بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی تھی۔

    ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کو کئی عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔

    ایک اندازے کے مطابق افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 40 ہزار ہاتھیوں کا شکار کیا جاتا رہا۔

    ہاتھی دانت کی تجارت کے لیے کچھ عرصہ قبل تک چین اور امریکا دنیا کی 2 بڑی مارکیٹیں سمجھی جاتی تھیں، دنیا بھر میں جمع کیا جانے والا ہاتھی دانت کا 50 سے 70 فیصد حصہ چین میں اسمگل کیا جاتا تھا۔

    تاہم ہاتھی کی نسل کو لاحق خطرات دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی تجارت کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے، اس حوالے سے افریقی ممالک کی کوششیں قابل ذکر ہیں جن کی سیاحت جنگلی حیات پر مشتمل ہے اور ہاتھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔

    سنہ 2015 میں افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بھی بنایا گیا جس کے پہلے ہی اجلاس میں افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔

    خود افریقی ممالک میں بھی ہاتھی سمیت دیگر جنگلی حیات کے شکار پر سخت سزائیں متعارف کروا دی گئیں، سنہ 2018 میں چین نے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ملک میں چلنے والی ہاتھی دانت کی تمام مارکیٹس بند کرنے کا اعلان کردیا اور ملک میں ہاتھی دانت کی تجارت کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

    سنگا پور اور ہانگ کانگ نے بھی ہاتھی دانت کی تجارت پر پابندی لگا دی تاہم امریکا، برطانیہ، جاپان اور تھائی لینڈ میں اب بھی قانونی طور پر سفید سونے کی تجارت جاری ہے۔

  • ہاتھی کے پاس سوا لاکھ کی کیا شے ہے؟

    ہاتھی کے پاس سوا لاکھ کی کیا شے ہے؟

    اردو زبان میں ایک کہاوت ہے، ہاتھی زندہ ہو تو لاکھ کا، مرا ہوا ہو تو سوا لاکھ کا۔ یہ جملہ عموماً کسی انسان، مقام یا شے کی قدر و قیمت کو ظاہر کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔

    لیکن خود ہاتھی بھی کوئی کم قیمتی نہیں اور اسے یہ خصوصیت اس کے لمبے دانتوں کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ ہاتھی دانت جسے سفید سونا بھی کہا جاتا ہے دنیا کی بیش قیمت ترین دھاتوں میں سے ایک ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

    یہی قدر و قیمت ہاتھی کی جان کی دشمن بن گئی اور دنیا بھر میں ہاتھی کا بے دریغ شکار کیا جانے لگا، ہاتھیوں کی حفاظت کے بارے میں آگاہی کے لیے ہر سال 12 اگست کو ہاتھی کا دن منایا جاتا ہے جس کا آغاز سنہ 2011 سے تھائی لینڈ میں کیا گیا تھا۔

    ہاتھی دانت کو زیورات، مجسمے اور آرائشی اشیا بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ خوبصورت اور شفاف ہونے کی وجہ سے یہ نہایت مہنگا ہے اور دولت مند افراد اسے منہ مانگے داموں خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل تک چین اور امریکا ہاتھی دانت کی تجارت کے لیے دنیا کی 2 بڑی مارکیٹیں سمجھی جاتی تھیں، دنیا بھر میں جمع کیا جانے والا ہاتھی دانت کا 50 سے 70 فیصد حصہ چین میں اسمگل کیا جاتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت ہاتھیوں کی بقا کے لیے شدید خطرہ بن گئی تھی اور یہ نہ صرف ہاتھیوں کی نسل کو ختم کر سکتی تھی بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی تھی۔

    ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کو کئی عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔

    سنہ 2016 میں عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی آبادی میں پچھلے 25 سالوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی۔

    صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے سنہ 2016 تک یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی۔

    ماہرین کے مطابق افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھیوں کا شکار کیا جاتا رہا۔

    تاہم ہاتھی کی نسل کو لاحق خطرات دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی تجارت کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے، اس حوالے سے افریقی ممالک کی کوششیں قابل ذکر ہیں جن کی سیاحت جنگلی حیات پر مشتمل ہے اور ہاتھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔

    سنہ 2015 میں افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بھی بنایا گیا جس کے پہلے ہی اجلاس میں افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔

    خود افریقی ممالک میں بھی ہاتھی سمیت دیگر جنگلی حیات کے شکار پر سخت سزائیں متعارف کروا دی گئیں، کینیا نے ایک قدم آگے بڑھ کر جنگلی حیات کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان کردیا۔

    سنہ 2017 میں چین نے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ملک میں چلنے والی ہاتھی دانت کی تمام مارکیٹس بند کرنے کا اعلان کردیا۔

    سنگا پور اور ہانگ کانگ نے بھی ہاتھی دانت کی تجارت پر پابندی لگا دی تاہم امریکا، برطانیہ، جاپان اور تھائی لینڈ میں اب بھی قانونی طور پر سفید سونے کی تجارت جاری ہے۔