Tag: WWF

  • پاکستان میں جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد کمی کا تباہ کن انکشاف

    پاکستان میں جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد کمی کا تباہ کن انکشاف

    کراچی: پاکستان میں گزشتہ نصف صدی کے دوران جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد کمی کا تباہ کن انکشاف سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف نے لِوِنگ پلانیٹ رپورٹ جاری کر دی، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں میٹھے پانی میں بسنے والی مختلف نسلوں کی آبادی میں 83 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پرندوں، خشکی پر رہنے والے اور رینگنے والے جانوروں اور مچھلیوں کی آبادی میں 1970 کے بعد سے اب تک 69 فی صد کی کمی دیکھی گئی ہے۔

    رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومتیں، ادارے اور عوام فوری طور پر حیاتیاتی تنوع کی تباہی کے ازالے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میٹھے پانی میں رہنے والے مختلف اقسام کے جانداروں کی آبادی میں اوسطاً 83 فی صد کمی واقع ہوئی ہے، اور 10 لاکھ پودوں اور جانوروں کی نسلوں کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے۔

    2.5 فی صد پرندے، ممالیہ، خشکی پر رہنے والے اور رینگنے والے جانور اور مچھلیاں پہلے ہی ناپید ہو چکی ہیں۔ آبادیاں بڑھنے سے جینیاتی تنوع میں کمی آئی ہے اور یہ جنگلی حیات اپنی ماحول دوست رہائش گاہوں سے محروم ہو رہے ہیں۔

    ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان حماد نقی خان نے کہا کہ پاکستان نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے جو خطرات سے دوچار ہیں، ان میں برفانی چیتے اور عام چیتے، دریائے سندھ کی ڈولفن، سفید اور لمبے گدھ، اور بحیرہ عرب کی ہمپ بیک وہیل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں نے کہا پاکستان میں جنگلی حیات کا تحفظ عام سطح پر ترجیحات میں شامل نہیں رکھا گیا، ہمیں جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کا تحفظ، جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے مسئلے کو حل کرنے اور ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان موسمیاتی آفات کی وجہ سے تیزی سے کمزور ہوتا جا رہا ہے، اور آب و ہوا کی تبدیلی قدرتی حیات کے نقصان کو ہوا دے رہی ہے، جس سے مختلف جانداروں کی نسلیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہو جائیں گی۔

  • دنیا بھرکے سمندروں میں شارک کی تعداد میں خطرناک کمی

    دنیا بھرکے سمندروں میں شارک کی تعداد میں خطرناک کمی

    کراچی: حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں شارک کی تعداد میں 71 فیصد کمی آئی ہے جبکہ پاکستان میں شارکس کی آبادی میں 85 فیصد کمی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق تحفظ فطرت کے ادارے ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شارکس کی تعداد میں 85 فیصد کمی آئی ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ حال ہی میں کی جانے والی بین الاقوامی تحقیق کے مطابق سنہ 1970 کے بعد سے دنیا بھر میں شارکس کی تعداد میں 71 فیصد کمی آئی ہے، یہ تحقیق جرنل نیچر میں شائع کی گئی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق گزشتہ 70 سال میں پاکستان میں شارک کی 69 اقسام پائی جاتی تھیں تاہم گزشتہ سالوں کے مقابلے میں پاکستانی سمندروں میں صرف 15 فیصد شارکس رہ گئی ہیں۔

    تحقیق میں شامل 20 چوٹی کے سائنسداںوں کا کہنا ہے کہ شارک کی آبادی میں اس قدر  کمی کی وجہ ان کا بے تحاشہ شکار ہے، گزشتہ 50 برسوں میں گوشت کے لیے کیے جانے والے شارک کے شکار میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 10 کروڑ شارکس شکار کی جاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شارک کا وجود سمندروں کے لیے نہایت ضروری ہے، یہ زیر آب فوڈ چین کو برقرار رکھتی ہیں اور خاص طور پر بیمار آبی جانداروں کو اپنی غذا بناتی ہیں۔

    شارک سمندروں کی صحت اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عالمی اداروں نے اسے معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کی فہرست میں رکھا ہے۔

  • بلوچستان کے ساحل پر 30 فٹ لمبی بروڈز وہیل مردہ حالت میں برآمد

    بلوچستان کے ساحل پر 30 فٹ لمبی بروڈز وہیل مردہ حالت میں برآمد

    کراچی : بلوچستان کے ساحل پر30فٹ لمبی بروڈز وہیل مردہ حالت میں ملی ہے، یہ مچھلی پاکستان میں3نایاب وہیلز میں سے ایک تھی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ٹیم نے بلوچستان کی ساحلی پٹی پر آپریشن کے بعد ایک بروڈز وہیل کو ڈھونڈ نکالا، 30 فٹ لمبی وہیل مردہ حالت میں ملی۔

    مقامی ماہی گیروں کے مطابق وہیل جال میں پھنسی ہوئی تھی، ہم نے اپنے دستیاب محدود وسائل سے وہیل کو جال سے نکالنے کی کوشش کی گئی مگر ناکام ہوگئے۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ٹیم اس جگہ پہنچی مگر وہ بھی وہیل کو تلاش نہ کرسکی، بعد ازاں گوادر اور ایران کی سرحد کے ساحل پر آپریشن کیا گیا، آپریشن کے چار دن بعد وہیل کو مردہ حالت میں پایا گیا۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے عہدیدار معظم خان نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان میں پائی جانے والی 3 نایاب ویلز میں سے یہ ایک تھی۔

    مزید پڑھیں : کراچی کے قریب چرنا آئی لینڈ پر پہلی بار بلیووہیل دیکھی گئی

    واضح رہے کہ بلیو وہیل دنیا میں پائے جانے والے بڑے جانوروں میں سے سب سے بڑا ہے، بلیو وہیل شرمپ نامی ایک چھوٹی مخلوق کو اپنی خوراک بناتی ہے، جسے کرِل کہتے ہیں۔

    اس سے قبل نایاب نسل کی اسپرم وہیلز کراچی سے 22 کلومیٹر دور دیکھی گئی تھیں بعد ازاں یہ وہیل بلوچستان کے ساحلوں سنارا بیچ اور جیوانی میں بھی دیکھی گئیں، کراچی سے لے کر بلوچستان تک جن ماہی گیروں نے اسے دیکھا اور ان وہیلوں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائیں۔

  • ایمازون کے جنگلات میں جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت

    ایمازون کے جنگلات میں جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت

    ساؤ پاؤلو: برازیل میں ایمازون کے جنگلات میں سائنس دانوں نے مختلف جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت کی ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا کہ نو دریافت شدہ تمام اقسام ان علاقوں میں ہیں جو انسانی مداخلت کی وجہ سے خطرے کا شکار ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف اور برازیل میمروا انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ان نو دریافت شدہ جنگلی حیات میں 216 نباتات، 93 مچھلیاں، 32 دیگر سمندری حیات، 19 رینگنے والے جانور (حشرات الارض)، ایک پرندہ جبکہ 20 ممالیہ جانور شامل ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ ایمازون میں گزشتہ 17 سالوں میں اب تک جنگلی انواع کی 2 ہزار سے زائد اقسام دریافت کی جاچکی ہیں، تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ اب ان کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    ادارے کےمطابق حال ہی میں دریافت کی جانے والی 381 اقسام ایمازون جنگل کے ان حصوں میں ہیں جہاں انسانی عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف برازیل کے پروگرام کو آرڈینیٹر رکارڈو میلو کا کہنا ہے کہ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ جنگلی حیات کی وہ اقسام معدوم ہوجائیں جو ابھی دنیا کے سامنے بھی نہیں آںے پائیں۔

    یاد رہے کہ ایمازون کے جنگلات رین فاریسٹ کی خاصیت رکھتے ہیں یعنی جہاں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

    ایمازون کے جنگلات دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بلین ٹری سونامی: خیبر پختونخواہ کا منفرد اعزاز

    بلین ٹری سونامی: خیبر پختونخواہ کا منفرد اعزاز

    پشاور: عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کا کہنا ہے کہ پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ واحد صوبہ ہے جہاں وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے 35 لاکھ ایکڑ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔

    حال ہی میں آئی یو سی این کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے پر کامیاب عملدر آمد کے بعد خیبر پختونخواہ کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہونے لگا ہے جس نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کو پورا کرتے ہوئے 35 لاکھ ایکڑ زمین پر جنگلات قائم کیے۔

    یاد رہے کہ بون چیلنج ایک عالمی معاہدہ ہے جس کے تحت دنیا کے درجنوں ممالک سنہ 2020 تک 15 کروڑ ایکڑ رقبے پر جنگلات میں اضافہ کریں گے۔

    آئی یو سی این نے خیبر پختونخواہ حکومت کو اس اہم سنگ میل کی تکمیل پر مبارک باد بھی دی۔

    دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں جاری شجر کاری کی مہم ’بلین ٹری سونامی‘ کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔

    اس منصوبے کے تحت صوبے بھر میں مجموعی طور پر ایک ارب درخت لگائے جانے تھے اور رپورٹ کے مطابق اب تک 94 کروڑ درخت کامیابی سے لگائے جاچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ تکمیل کے قریب

    اب تک متعدد عالمی اداروں بشمول آئی یو سی این اور عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی جانب سے بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کی نگرانی کی جاچکی ہے اور اسے کامیاب قرار دیا جاچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا تیز رفتار ترین منصوبہ ہے اور پوری دنیا میں 3 سال کے عرصے میں کسی بھی ملک نے شجر کاری کا اتنا بڑا ہدف حاصل نہیں کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جان سینا کی واپسی، حریفوں کے چھکے چھوٹ گئے

    جان سینا کی واپسی، حریفوں کے چھکے چھوٹ گئے

    نیویارک: ڈبلیو ڈبلیو ای سُپر اسٹار جان سینا کی رنگ میں واپسی ہوگئی، جان سینا کا مقابلہ آج رات ڈبلیو ڈبلیو ریٹرنز،میڈیسن اسکوائر گارڈن، نیو یارک سٹی میں ہوگا۔

    cena-post-1

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ٹرپل تھریٹ میچ میں جان سینا کے مدمقابل ڈبلیو ڈبلیو ای چیمپئن اے جے اسٹائلزاور ڈین ایمبروز ہیں،جان سینا اکتوبر سے رنگ میں نہیں اترے تھے تین ماہ کے وقفے کے بعد جان سینا کی واپسی ہورہی ہے اور اس کے لیے انہوں نے ایکسرسائز کا آغاز کردیا تھا۔

    جان سینا کی رنگ سے دوری کی وجہ ان کی فلمی مصروفیات تھیں جو کہ اب ختم ہوچکی ہیں۔ سینا کے مداح ان کو ہالی ووڈ فلم ’’سیکنڈ سیزن آف امریکن گرڈ‘‘ میں دیکھ سکیں گے۔

    cena-post-2

    علاوہ ازیں آج ہونے والے اسمیک ڈاؤن، ٹیگ ٹیم چیمپئن شپ کے مقابلے میں رینڈی اورٹن اور برے وائٹ مد مقابل ہوں گے جب کہ اسٹیل کیج میچ میں ڈبلیو ڈبلیو انٹرنیشنل چیمپئن شپ میں ڈولف زگلر کو ’دا مز‘ کا چیلنج درپیش ہوگا۔

    39 سالہ جان سینا ریالٹی شو کی میزبانی کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ سینا 16 مرتبہ ڈبلیو ڈبلیو ای چیمپئن شپ کا ٹائٹل اپنے نام کرچکے ہیں۔

    cena-post-3

    جان سینا قبل ازیں مقبول ریسلرز دی راک، ٹرپل ایچ، کرٹ اینگل، رینڈی اورٹن، بروک لیسنرز سے مقابلہ کرچکے ہیں جس میں ان کو کامیابی اور ناکامی دونوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم کامیابی کا تناسب زیادہ ہے۔

    ٹرپل تھریٹ میچ کے بارے میں پیش گوئی کی جارہی ہے کہ اے جے اسٹائلز، سینا اور ایمبروز میں سے سینا  فیورٹ ہیں۔

    cena-post-4

    جان سینا کی واپسی کی خبر سنتے ہی ان کے حریفوں کے چھکے چھوٹ گئے ہیں دوسری جانب سینا کے مداح کافی خوش دکھائی دے رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ جان اپنے مداحوں کے اعتماد پر پورا اترتے ہیں کہ نہیں۔

  • کراچی سے ملنے والا پینگولین چڑیا گھر سے کیرتھر نیشنل پارک منتقل

    کراچی سے ملنے والا پینگولین چڑیا گھر سے کیرتھر نیشنل پارک منتقل

    کراچی : کراچی سے ملنے والا بھارتی نسل کا پینگولین کراچی زو سے کیر تھر نیشنل پارک منتقل کردیا گیا ۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ وائلڈ لائف اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کی انتظامیہ نے کراچی کے علاقے جمشید ٹاؤن اسلامیہ کالج  کے قریب رہائشی گلی سے پانچ روزقبل ملنے والا پینگولین کراچی چڑیا گھر سے کیر تھر نیشنل پارک منتقل کردیا ہے۔

    مذکورہ پینگولین بھارتی نسل کا ہے، اور اس کا سائز تین فٹ ہے پاک و ہند میں پایا جانے والا انڈین پینگولن ایک بے ضرر اور نایاب جانور ہے جس کی نسل ختم ہونے کے قریب ہے۔

    ’’پینگولن‘‘ ایک نایاب نسل کا جانور ہے، یہ چیونٹی خور جانوروں کی نسل سے تعلق رکھنے والا ایک بے ضرر اور معصوم جانور ہے ۔

    پینگولین محض کیڑے مکوڑے دیمک اور چیونٹیاں کھاتا ہے۔ اس کی لمبی تھوتنی اور باریک لمبی زبان ہوتی ہے، جسم پر سخت چھلکے ہوتے ہیں۔ خطرے کے وقت خود کو گیند کی طرح لپیٹ لیتا ہے۔

    پینگولن کو ان جانوروں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جن کی نسل ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، پاکستان میں لوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس نایاب جانور کو خوفناک بلا سمجھ کر ہلاک کردیتے ہیں۔

  • کراچی کے شہریوں نے نایاب نسل کے 42 کچھووں کی جان بچالی

    کراچی کے شہریوں نے نایاب نسل کے 42 کچھووں کی جان بچالی

    کراچی: شہریوں نےساحلِ سمندر سی ویو پرتازہ پانی کے کچھووں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی نشاندہی کی جس کے سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا کہ انہیں ان کے قدرتی ماحول میں پہنچایا جاسکے۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق سی ویو کے ساحل سے کل 42 سیاہ دھبے دار کچھوے برآمد کئے جنہہںعالمی تنظیم برائے تحفظِ قدرت نے غیرمحفوظ قراردے رکھا ہے۔

    سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 15 کچھوے مردہ حالت میں بھی پائے گئے خیال کیا جارہا ہے کہ جانوروں کے اسمگلروں نے سخت چیکنگ کے سبب ساحل پرچھوڑدیا۔

    اعلامیے کے مطابق ساحل کے قریب چہل قدمی والے ایک جوڑے نے سڑک پر کچھ کچھوے دیکھے تو انہیں گاڑیوں کی زد میں آنے سے بچایا، سی بی ایم لائف گارڈز نے بھی 13 کچھووں کی جان بچائی اور 18 کچھوے آفتاب احمد نامی ایک شہری نے بچا کر ورلڈ وائلڈ فنڈ پاکستان کے حوالے کئے۔

    پاکستان میں تازہ پانی کے کچھووں کی آٹھ اقسام پائی جاتی ہیں جہاں جن میں سے پانچ کو عالمی سطح پر خطرات لاحق ہیں۔

  • ڈھائی میٹر لمبی نایاب نسل کی گٹار فش پکڑی گئی

    ڈھائی میٹر لمبی نایاب نسل کی گٹار فش پکڑی گئی

    گوادر : بلوچستان میں پسنی کے ساحل پر نایاب نسل کی مچھلی پکڑی گئی۔ مچھلی شکار کے دوران ماہی گیروں کے جال میں پھنسی تھی۔

    محکمہ وائلڈ لائف کے تربیت یافتہ عملے نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے نایاب نسل کی مچھلی کوبچا کر دوبارہ سمندر میں چھوڑ دیا۔

    پسنی کے ساحل سے پکڑی جانے والی ڈھائی میٹر لمبی مچھلی کوگٹار فش کہاجاتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق مچھلی مقامی ماہی گیروں کے جال میں پھنسی جس کے بعد نایاب مچھلی کوریسکیو کیا گیا۔

    پسنی کےساحل سے پکڑی گئی مچھلی دنیا کی نایاب قسم کی مچھلی ہے جو سمندر میں بہت کم پائی جاتی ہے۔

    گٹار فش عام طور پر سمندر کی تہہ میں گارے اور ریت کے اندر رہنے کی عادی ہیں اور سمندری کیڑے مکوڑے کھاکر گزاراکرتی ہیں ۔

    یہ پانی کی تینوں اقسام نمکین ،تازے اور کھارے پانی میں رہ سکتی ہیں ۔یہ عام طور پر سمندر میں 30میٹر پانی کے نیچے رہتی ہیں اور ماہی گیروں کا شکار بننے سے اکثراوقات محفوظ رہتی ہیں ۔


    Rare Fish Discovered From Pasni Beach by arynews