Tag: youm e shahadat

  • یکم محرم ، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یومِ شہادت

    یکم محرم ، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یومِ شہادت

    کراچی :‌ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت آج عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے ، وہ ایسی عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لئے خدمات، جرات و بہادری،  فتوحات اور شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔

    حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر حرم ایمان میں داخل ہوئے۔

    آپ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے، آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔

    آپؓ نے ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعد بیس افراد کے ساتھ علانیہ مدینہ کو ہجرت کی ، آپؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک اس عہدہ پر کام کیا۔

    حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

    حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں ، جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی، پیغمبر خداۖ نے غلاف کعبہ پکڑ کر دُعا مانگی کہ اے اللہ مجھے عمر بن خطاب عطا فرما دے۔

    قبول اسلام کے بعد عہد نبوت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف قرب حاصل ہوا بلکہ تمام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت کو اہمیت حاصل تھی۔ غزوات ہوں یا حکومتی معاملات، سب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔

    حضرت عمر فاروقؓ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد آپؓ کا رتبہ سب سے بلند ہے، آپؓ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

    میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا (ترمذی ) ۔

    عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقی)۔

    حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سےکفارکی روح کانپتی تھی، رسول پاک ﷺ نے فرمایا عمر جس راستے سے گزرتے ہیں، شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ (بخاری ومسلم)۔

    میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا( مشکٰوۃ)۔

    دور خلافت

    آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا۔

    حضرت عمر کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا۔بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے امیرالمومنین کہہ کر پکارے گئے آپؓ نے بیت المال کا شعبہ فعال کیا، اسلامی مملکت کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا مردم شماری کی بنیاد ڈالی قاضیوں کےلئے خطیر تنخواہیں متعین کیں، احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا جیل خانہ وضع کیااو رجلاوطنی کی سزا متعارف کی سن ہجری جاری کیا زراعت کے فروغ کےلئے نہریں کھدوائیں۔

    حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور قول ہے کہ

    اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا

    اس قدر خوف خدا رکھنے والا راتوں کو جاگ کر رعایا کی خدمت اور جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں سورئہ نور کی آیات مبارکہ کا نازل ہونا جس نے اپنی آمد پر مدینہ کی گلیوں میں اعلان کیا، کوئی ہے جس نے بچوں کو یتیم کرانا ہو ، بیوی کو بیوہ کرانا ہو ، ماں باپ کی کمر جھکانا ہو ، آنکھوں کا نورگُم کرانا ہو ،آئے عمر نے محمد رسول اللہ ۖ کی غلامی کا دعویٰ کر لیا ہے آج سے اعلانیہ اذان اور نماز ہوا کرے گی ۔

    شہادت

    رسول پاکﷺ نے انہیں شہادت کی خوشخبری سنائی تھی، ستائس ذوالحج سنہ تیئس ہجری کو حضرت عمر نماز فجر کی امامت کررہے تھے کہ ابولولوفیروز نامی مجوسی نے آپ کو زہر آلود خنجر سے زخمی کردیا۔

    حضرت عمرتین دن موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا رہنےکے بعد یکم محرم چوبیس ہجری کو شہید ہوگئے، آپ روضہ رسول ۖ میں انحضرت ۖ کے پہلو مبارک میں مدفن ہیں۔

  • کارگل جنگ کے ہیرو کیپٹن کرنل شیر خان کا آج یوم شہادت

    کارگل جنگ کے ہیرو کیپٹن کرنل شیر خان کا آج یوم شہادت

    پاک فوج کے ایک بہادر سپوت کیپٹن کرنل شیر خان کا آج 18واں یوم شہادت منایا جارہا ہے۔

    کیپٹن کرنل شیر خان شہید یکم جنوری 1970ء کو صوابی ایک گاؤں نواں کلی میں پیدا ہوئے گورنمنٹ کالج صوابی  سے اپنا انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ائیر مین کے طور پر پاکستان ائیر فورس میں شمولیت اختیار کر لی اور اپنی ٹریننگ مکمل کی اور رسالپور کے بنیادی فلائنگ ونگ میں الیکٹریکل فٹر کے طر پر تعینات ہوئے۔

    اس دوران انہوں نے دو بار پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کی کوشش کی جس میں دوسری دفعہ کامیابی حاصل کی ، گریجویشن مکمل کرکے 14 اکتوبر 1994 میں پاک فوج میں شمولیت اختیارکی تھی۔

    کیپٹن کرنل شیر خان نے 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے بے پناہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کردئیے۔

    انکے چہرے پہ ہمیشہ ایک فوجی کی مسکراہٹ رہتی تھی جس کی وجہ سےشیراکے لقب سے مشہور تھے۔

    کارگل کی جنگ جب شروع ہوئی تو کیپٹن کرنل شیر خان نے مٹھی بھر جوانوں کے ہمراہ گلتیری کے مقام پر17000 فٹ کی بلندی پردفاعی نوعیت کے پانچ انتہائی اہم مورچے قائم کیے اور پھرانتہائی جانفشانی سے ان کا دفاع کرتے رہے‌۔

    کئی ناکام کوششوں کے بعد بھارتی افواج نے 5 جولائی 1999 کو دو بٹالین اور بھاری توپ خانے کے ہمراہ حملہ کیا اور ان کے ایک مورچے کے کچھ حصے پر قبضہ کرلیا۔ انتہائی بھاری گولہ باری کے باوجود شیر خان نے جوابی حملہ کیا اور اپنے مورچے کی قبضہ شدہ جگہ واپس چھین لی اور اسی جدوجہد میں ایک مشین گن کی گولیوں کی زد میں آگئے اور جام شہادت نوش کیا۔

    کارگل جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔

    کرنل شیر خان خیبر پختونخوا سے پہلے فوجی اہلکار تھے جن کو نشان حیدر دیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • میجر شبیر شریف شہید کا یوم شہادت آج منایا جارہا ہے

    میجر شبیر شریف شہید کا یوم شہادت آج منایا جارہا ہے

    لاہور: میجر شبیر شریف شہید کا یوم شہادت آج منایا جارہا ہے۔ میجر شریف شہید وہ واحد شخصیت ہیں جنھیں نشان حیدر اور ستارہ جرات سے نواز گیا۔

    دشمن کے خلاف مردانہ وار لڑنے پر میجر شبیر شریف کو آرمی کا سپر مین بھی کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف سے جی او سی مری میجر جنرل کلیم آصف نے میجر شبیر شریف شہید کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔

    اس موقع پر میجر شبیر شریف کی بہن، بیٹا اور خاندان کے دیگر افراد بھی موجود تھے۔فرنٹیئر کور کے چاق و چوبند دستے نے بگل بجا کر برسی کی تقریبات کا آغاز کیا اور سلامی پیش کی۔

    علاوہ ازیں پاک فوج کے میجر جنرل فداحسین نے بھی میانی صاحب قبرستان میں میجر شبیر شریف شہیدکی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔

    انیس اکہتر کی جنگ میں بھی میجر شبیر نے سلیناکی ہیڈ ورکس پر دشمن کا بہادری سے مقابلہ کیا اور چار بھارتی ٹینکوں کو تباہ اور تنتالیس بھارتی فوجیوں کونشان عبرت بنا ڈالا۔

    انیس سو اکہتر کی جنگ میں دشمنوں کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے انہوں نے 6 دسمبر کو جام شہادت نوش کیا۔ پاکستان فوج کے لئے بے لوث خدمات کے اعتراف میں انھیں پاکستان کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نواز گیا۔ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ نشان حیدر اور ستارہ جرات حاصل کرنے والی واحد شخصیت ہیں۔

    میجر شبیر شریف کے قریبی عزیز میجر عزیز بھٹی بھی نشان حیدر حاصل کرنے والے خوش نصیبوں میں شامل ہیں۔ میجر شبیر شریف کے سگے چھوٹے بھائی جنرل راحیل شریف اس وقت پاکستان آرمی کے سپہ سالار کے طور پر فرائض سر انجام دیے رہے ہیں۔