Tag: youm e wafat

  • نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 21 برس بیت گئے

    نامورشاعرمحسن نقوی کو ہم سے بچھڑے 21 برس بیت گئے

    کراچی :آج اردو کے ممتاز شاعر محسن نقوی کا یوم وفات ہے، ان کا اصل نام سید غلام عباس نقوی تھا، اور آپ 5 مئی 1947 کو محلہ سادات ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے ۔

    محسن نقوی نے بچپن سے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجہ دی، مسجد کے ساتھ  گھر میں قرآن مجید اور ناظرہ کی طرف توجہ دیتے اور مذہبی کتابیں ذو و شوق سے پڑھتے تھے۔

     انہوں نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا، اور کم و بیش اسی زمانے میں ان کی شاعری کا بھی آغاز ہوا۔

    بعد ازاں تعلیم کو خیر باد کہہ کر ذاتی کاروبار کی طرف راغب ہو گئے اور انیس سو سڑسٹھ میں اپنی چچا زاد سے شادی کرلی، محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔

    گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ” الغازی” کے مدیر اور کالج کی یونین کے نائب صدر تھے، جب انہوں نے ” فکر جدید” نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہو گیا۔

    کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے، سب ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ان دنوں ان کا ایک قطعہ بے حد پذیرائی حاصل کرنے لگا۔

    چاندنی کارگر نہیں ہوتی
    تیرگی مختصر نہیں ہوتی
    ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں
    احتراماً سحر نہیں ہوتی

    ایک مرتبہ محسن نقوی اپنے ماموں زاد سید علی شاہ نقوی کے ہمراہ اکٹھے گاڑی میں لاہور جا رہے تھے راستے میں ماچس کو انگلیوں سے بجاتے جاتے اور شعر کہتے جاتے اور لاہور تک انہوں نے ایک ایسی غزل کہہ ڈالی جو آج تک بھی زبان زد عام ہے وہ غزل تھی”

    یہ دل یہ باگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی”

    جسے پاکستان کے ہر دلعزیز گلوکار غلام علی نے گا کر ہمیشہ کے لیئے امر کر دیا۔

    انیس سو انہتر میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے باقاعدہ کارکن کی حیثیت سے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے سیاست میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اس حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

    انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی۔ 1994ء میں انھیں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا تھا۔

    محسن نقوی کا پہلا شعری مجموعہ بند قبا 1970ء میں دوستوں کے مالی تعاون سے منظرعام پر آیا جس میں انہوں نے 1965 ء سے 1970 ء تک کی شاعری شائع کی اور اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی محسن نقوی کا نام اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید ہو گیا۔

    اگر نہ صبر مسلسل کی انتہا کرتے
    کہاں سے عزم پیغمبر کی ابتدا کرتے؟
    نبی ﷺکے دیں کو تمنا تھی سرفرازی کی
    حسین سرنہ کٹاتے تو اور کیا کرتے؟

    ان کے شعری مجموعات میں بندِ قبا، ردائے خواب، برگِ صحرا، موجِ ادراک، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، فراتِ فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہیں۔

    محسن طلوعِ اشک دلیلِ سحر بھی ہے
    شب کٹ گئی ، چراغ بجھا دینا چاہیے

    پندرہ جنوری 1996 کی ایک شام اس نامور شاعر محسن نقوی کو نامعلوم دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر کے ہمیں ایسا کر ب دیا جو کبھی بھی کم نہ ہو سکے گا۔

  • حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا آج یوم وفات ہے

    حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا آج یوم وفات ہے

    انیس فروری 1275 بمطابق 21 شعبان 673 ھجری سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی تاریخ وفات ہے، ﺣﻀﺮﺕ ﻟﻌﻞ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ (1177تا 1274) آپؒ کا اصل نام عثمان مروند تھا، آپ 1177 عیسوی بمطابق 573ھجری میں مروند کے مقام پر پیدا ہوئے۔

     ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا تعلق صوفی سلسلۂ سہروردیہ سے تھا۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے۔

    آپؒ کا سلسلہ نسب تیرہ واسطوں سے ہوکر جعفر صادق تک پہنچتا ہے، سید عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سید نورشاہ بن سیدمحمود شاہ بن احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن سید جعفر صادق۔

    آپ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر "لعل” کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی اس وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔ شہبازکا لقب امام حسن نے ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا کیا، اس وجہ سے "شہباز لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے۔

    آپؒ نے ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد حضرت ابراہیم کبیر الدینؒ سے کی، قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان بھر کی سیاحت کی اور مختلف اولیاء کرام کی صحبت سے مستفید ہوئے، جن میں ھضرت شیخ فرید الدئین شکر گنجؒ، حضرت بہاءالدین ذکریا ملتانیؒ، حضرت شیخ بو علی قلندرؒاور حضرت مخدوم جہانیاں جلال الدین بخاریؒ کے نام سر فہرست ہیں۔

    آپ مروند (موجودہ افغانستان) کے ایک درویش سید ابراہیم کبیر الدین کے بیٹے تھے۔ ان کے اجداد نے عراق سے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی جہاں کی تعلیم مشہور تھی۔

    بعد ازاں مروند کو ہجرت کی۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور آپ نے اسلامی دنیا کے لا تعداد سفر کیے جس کی وجہ سے آپ نے فارسی، عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت میں مہارت حاصل کر لی۔

    آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور مسلمانوں کے علاوہ اہلِ ہنود میں بھی بڑی عزت تھی۔ آپ سرخ لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے انہیں لال کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں جھولے لال بھی کہا جاتا تھا۔ آپ کا وصال21 شعبان المعظم 673 ہجری میں ہوا

    آپ کا مزار سندھ کے شہر سیہون شریف میں ہے۔ یہ سندھی تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے اور 1356ء میں تعمیر ہوا۔ اس کا اندرونی حصہ 100 مربع گز کے قریب ہے۔ ان کا سالانہ عرس اسلامی تقویم کے مطابق 18 شعبان المعظم کو ہوتا ہے۔

  • انشاء جی کو ہم سے بچھڑے 39 برس بیت گئے

    انشاء جی کو ہم سے بچھڑے 39 برس بیت گئے

    برصغیر کے نامور شاعر اور سفر نامہ نگار ابن انشاء کو دنیا سے کوچ کیے ہوئے انتالیس سال بیت گئے۔ ان کی شاعری اورمزاحیہ تحریریں آج بھی مقبول عام ہیں۔ ابنِ انشاء شاعر بھی تھے اور ادیب بھی، انہوں نےغزلیں نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز تھا۔

    ابن انشاء کا اصلی نام شیر محمد خان اور تخلص انشاء تھا۔ آپ 15 جون 1927 کو جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوٴں کے اسکول میں حاصل کی۔ گاوٴں سے کچھ فاصلے پر واقع اپرہ قصبہ کے اسکول سے مڈل اور 1941ء میں گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔

    انیس سو چھیالیس میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1962ء میں نشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ٹوکیو بک ڈوپلمنٹ پروگرام کے وائس چیرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے۔

    insha-post-01

    روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں ہلکے فکاہیہ کالم لکھتے تھے۔ کچھ عرصہ کراچی میں گزارنے کے بعد آپ لاہور تشریف لے آئے، آپ کی بھرپور ادبی زندگی کا آغاز لاہور ہی سے ہوا۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ادیب و شاعر ابن انشاء نا صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

    کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
    کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا

    ابنِ اِنشاء ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے غزل و نظم، سفر نامہ، طنز و مزاح اور ترجمے کے میدان میں طبع آزمائی کی اور اپنی شاعری و نثر کے وہ اَنمٹ نقوش چھوڑے کہ جن کی بنا پر اردو ادب میں ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ جاوید ہوگیا۔

    insha-jee

    ابن انشاء سرطان جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر علاج کی غرض سے لندن گئے اور گیارہ جنوری 1978 کو وہیں وفات پائی، وفات کے بعد انہیں کراچی میں دفن کیا گیا۔ ابن انشاء اس وقت ہمارے ساتھ موجود نہیں مگر ان کی یادیں چاہنے والوں کو دلوں میں آج بھی زندہ ہیں ۔

    ان کی تصانیف میں

    شعری کلام: چاند نگر ۔ پہلا مجموعہ ۔ اس بستی کے اک کوچے میں، دوسرا مجموعہ، چینی نظمیں

    نثری تصانیف میں : اردو کی آخری کتاب ، خمار گندم ، چلتے ہو تو چین کو چلئے، آوارہ گرد کی ڈائری ، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں

    (ابن انشاء کی وہ شاہکارغزل جس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد وہ دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔)
    جسے استاد امانت علی خان نے گا کر امر کردیا

    انشإ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ ؔجالندھری کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے

    قومی ترانے کے خالق حفیظ ؔجالندھری کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے

    کراچی : قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کا یوم وفات آج عقیدت و احترام سے منایا جائے گا۔ اس موقع پر ملک بھر میں خصوصی تقریبات منعقد ہوں گی جن میں شاہنامہ اسلام اور قومی ترانے کے خالق کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

    پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری 14 جنوری سنہ 1900 کو پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شمس الدین حافظِ قرآن تھے۔ حفیظؔ مرحوم نے اپنی ابتدائی تعلیم مسجد سے منسلک مدرسے سے حاصل کی، پھرایک مقامی اسکول میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔

    شاعری میں ان کو نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں وہ ہجرت کر کے لاہور منتقل ہوگئے۔ اس سے قبل حفیظؔ جالندھری 1922ء سے 1929ء تک مختلف ماہناموں کے مدیر رہے جن میں نونہال، ہزار داستان، تہذیبِ نسواں، مخزن جیسے مجلے شامل ہیں۔

     

    ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "نغمہ ء زار” 1935ء میں شائع ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہ "سونگ پبلسٹی ڈپارٹمنٹ” کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دور میں انہوں نے بہت سے ایسے نغمے اور گیت لکھے جو عوام میں بہت مقبول ہوئے۔

    حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادر الکلام شاعر تھے، آپ کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا، اس کے ذریعے انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا، جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔

    jalindhari-post-01

    ان کے شاعرانہ کارناموں میں ایک بہت بڑا کارنامہ شاہنامہ فردوسی کے انداز میں شاہنامہ اسلام کی تخلیق ہے جس نے ان کی شہرت کو بقائے دوام بخشا۔

    اس طویل نظم میں انہوں نے اسلام کے دورِ زریں کی تاریخ بیان کی ہے۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کے قومی ترانے کی تخلیق ہے جسے موسیقار احمد جی چھاگلا نے سُروں سے سجایا ہے۔ اس قومی ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    ان کی شاعری میں پائی جانے والی غنائیت اور مشاعروں میں ان کے ساحرانہ ترنم کی وجہ سے ان کو شعراء میں انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ عام طور پر ان کی شاعری میں عشق، مذہب، حب الوطنی اور قدرت کے موضوعات پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنے موضوعات برصغیر کے مخصوص ماحول کے تناظر میں چنتے ہیں۔

    ان کی زبان میں اردو اور ہندی کا بڑا خوبصورت امتزاج دیکھنے میں آتا ہے جو جنوبی ایشیا کی مخصوص ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ حفیظ ؔ مرحوم کو ان کی خدمات کی بنا پر حکومت ِ پاکستان کی جانب سے تمغہ ء حسنِ کارکردگی اور ہلال ِ امتیاز سے نوازا گیا۔

    حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ با، تلخابہ شیریں اور سوز و ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب چیونٹی نامہ قابل ذکر ہیں۔

    ابوالاثر حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر 1982 کو لاہور میں وفات پائی ، وہ مینار پاکستان کے سائے تلے آسودہ خاک ہیں۔

  • عظیم خطیب اورعالم دین علامہ رشید ترابیؒ کی 43 ویں برسی

    عظیم خطیب اورعالم دین علامہ رشید ترابیؒ کی 43 ویں برسی

    اردو زبان، عربی یا فرانسیسی کی مانند بلا شبہ خطابت کے لئے از حد زرخیز ہے، چنانچہ اس زبان نے بے شمار اعلی پائے کے خطیب متعارف کئے ہیں، ان میں شورش کاشمیری اورعطا اللہ شاہ بخاری جیسے نابغہ روزگار خطیب بھی شامل ہیں، علامہ رشید ترابی کی داستان بھی نہ صرف فصاحت و بلاغت کی داستان ہے بلکہ ایک غیر معمولی حافظے کی داستان بھی ہے، آج ان ہی عظیم خطیب کا یوم وفات ہے۔

    ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺧﻄﯿﺐ، ﻋﺎﻟﻢ ﺩﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮﻋﻼﻣﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺗﺮﺍﺑﯽ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ نو ﺟﻮﻻﺋﯽ 1908ﺀ ﮨﮯ۔ ﻋﻼﻣﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺗﺮﺍﺑﯽ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﻧﺎﻡ ﺭﺿﺎ ﺣﺴﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺣﯿﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺩﮐﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ آپ کے والد مولوی شرف الدین ایک اعلی سرکاری عہدے پھر فائز تھے۔

    آپ کے بھائی مظہرعلی خان پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے جبکہ دیگر تین بھائی بھی قابلیت کے مدارج پر فائز رہے، علامہ صاحب وہ پہلے ذاکر تھے جنہوں نے سولہ سال کی عمر میں عنوان مقرر کر کے تقریر کرنے کی بنیاد ڈالی۔

    turrabi-post-01

    ﻋﻼﻣﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺗﺮﺍﺑﯽ ﻧﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻋﻼﻣﮧ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﺷﻮﺳﺘﺮﯼ، ﺁﻏﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺤﺴﻦ ﺷﯿﺮﺍﺯﯼ، ﺁﻏﺎ ﺳﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺍﺻﻔﮩﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭﻋﻼﻣﮧ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺷﮩﺎﺏ ﻋﺮﯾﻀﯽ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ، ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﻢ ﻃﺒﺎﻃﺒﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻼﻣﮧ ﺿﺎﻣﻦ ﮐﻨﺘﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺫﺍﮐﺮﯼ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻋﻼﻣﮧ ﺳﯿﺪ ﺳﺒﻂ ﺣﺴﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﻗﺒﻠﮧ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﮑﯿﻢ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ۔

    ﻋﺜﻤﺎﻧﯿﮧ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﯽ ﺍﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻟٰﮧ ﺁﺑﺎﺩ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺳﮯ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻢ ﺍﮮ ﮐﯿﺎ۔ ﻋﻼﻣﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺗﺮﺍﺑﯽ ﻧﮯ 10 ﺑﺮﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﺫﺍﮐﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺳﯿﺪ ﻏﻼﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺪﺭ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ ﮐﯽ ﻣﺠﺎﻟﺲ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﺧﻮﺍﻧﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺳﻮﻟﮧ ﺑﺮﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻘﺎﺭﯾﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮟ۔

    turrabi-post-02

    ﺗﻘﺎﺭﯾﺮ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺟﺪﯾﺪ ﺧﻄﺎﺑﺖ ﮐﺎ ﻣﻮﺟﺪ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ 1942ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﮔﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﯿﺪ ﺛﺎﻟﺚ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺗﻘﺎﺭﯾﺮ ﮐﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮔﯿﺮ ﺷﮩﺮﺕ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻨﯿﮟ۔

    ﻋﻼﻣﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺗﺮﺍﺑﯽ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻋﻤﻠﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺴﻠﮏ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺋﺪ ﻣﻠﺖ ﻧﻮﺍﺏ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﯾﺎﺭ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺠﻠﺲ ﺍﺗﺤﺎﺩ ﺍﻟﻤﺴﻠﻤﯿﻦ ﮐﮯ ﭘﻠﯿﭧ ﻓﺎﺭﻡ ﭘﺮﻓﻌﺎﻝ ﺭﮨﮯ۔ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﭘﺮﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻢ ﻟﯿﮓ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﻮﻟﯿﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ انیس سو چالیس ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ‏( ﺩﮐﻦ‏) ﮐﯽ ﻣﺠﻠﺲ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺳﺎﺯ ﮐﮯ ﺭﮐﻦ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮨﻮﺋﮯ۔

    سنہ انیس سو اننچاس ﻣﯿﮟ ﻋﻼﻣﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺗﺮﺍﺑﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﮔﺌﮯ، ﯾﮩﺎﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﻤﻠﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﺳﮯ ﮐﻨﺎﺭﮦ ﮐﺸﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺫﮐﺮِ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻗﻒ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔

    ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ 1951ﺀ ﺳﮯ 1953ﺀ ﺗﮏ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﺯﻧﺎﻣﮧ ﺍﻟﻤﻨﺘﻈﺮ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍء ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺩﮐﻦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺖ ﺭﻭﺯﮦ ﺍﻧﯿﺲ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ 1957ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻋﯽ ﺳﮯ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ 1400 ﺳﺎﻟﮧ ﺟﺸﻦ ﻣﺮﺗﻀﻮﯼ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮨﻮﺍ۔

    ﻋﻼﻣﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺗﺮﺍﺑﯽ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺩﺭ ﺍﻟﮑﻼﻡ ﺷﺎﻋﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﻼﻡ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ’’ ﺷﺎﺥ ﻣﺮﺟﺎﻥ ‘‘ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﭘﺰﯾﺮ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﺮﺩﮦ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻃﺐ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﻦ ‘ ﺣﯿﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﮐﮯ ﺟﻨﮕﻼﺕ ﺍﻭﺭ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﻋﻠﻤﯽ ﻭ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ۔

    ﻋﻼﻣﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺗﺮﺍﺑﯽ 18 ﺩﺳﻤﺒﺮ 1973ﺀ ﮐﻮ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﯿﻨﯿﮧ ﺳﺠﺎﺩﯾﮧ ﮐﮯ ﺍﺣﺎﻃﮯﻣﯿﮟ ﺁﺳﻮﺩﮦٔ ﺧﺎﮎ ﮨﻮئے۔ آج ان کو ہم سے رخصت ہوئے تینتالیس برس گزر گئے، اور یہ ذکر حسین کا ہی فیض ہے کہ ان کی یاد کا اجالا اس دن ختم ہوگا جس دن آخری سورج غروب ہوگا۔

    ہے تیرے ذکر کی عطا ذکر رشید ہے یہاں
    سب کو میں یاد رہ گیا صدقے تیری یاد کے