Tag: young boy

  • باپ نے ماں کو قتل کیا ہے: کمسن بچے نے خوفناک واقعہ کہہ سنایا

    باپ نے ماں کو قتل کیا ہے: کمسن بچے نے خوفناک واقعہ کہہ سنایا

    امریکا میں وحشیانہ تشدد سے بیوی کو قتل کر کے اس کی لاش چھپانے والے باپ کا بھانڈا کم عمر بیٹے نے پھوڑ دیا، پولیس نے 50 سالہ ملزم کو گرفتار کرلیا۔

    امریکی ریاست کینٹکی میں 38 سالہ ربیکا ہوور کی ماں نے 2 اگست کو اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی، پولیس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی کہ اچانک کم عمر بیٹے نے آنکھوں دیکھے خوفناک واقعے کا حال کہہ سنایا۔

    ربیکا کے 3 بچوں میں سے ایک بیٹے نے اپنے اسکول کی کاؤنسلر کو بتایا کہ اس نے ایک دن تہہ خانے میں اپنے باپ کو ماں پر تشدد کرتے دیکھا تھا۔

    ایلیمنٹری اسکول میں پڑھنے والے بچے کا کہنا تھا کہ باپ نے اپنے مضبوط جوتوں سے کئی بار ماں کے سر پر زور دار ٹھوکریں ماریں، بعد ازاں چابیوں کے گچھے سے اس کے چہرے پر وار کیا جس کے بعد ماں بے حس و حرکت ہوگئی۔

    اسکول کے کاؤنسلر نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع کی جس نے بچے کے گھر پہنچ کر اس کے باپ 50 سالہ جڈسن ہوور کو حراست میں لے لیا، گھر کے تہہ خانے کی سیڑھیوں پر خون سے ملتے جلتے نشانات بھی موجود تھے تاہم ٹھوس ثبوت کی عدم موجودگی پر پولیس نے اسے چھوڑ دیا۔

    اسی رات جڈسن ایک اسٹوریج یونٹ میں پہنچا اور ایک 55 گیلن کا کنٹینر ادھر سے ادھر کرتے ہوئے پایا گیا۔ پولیس نے اس کی یہ حرکت سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے دیکھ لی۔

    مزید تفتیش پر انکشاف ہوا کہ ربیکا کی گمشدگی سے ایک روز بعد یعنی 3 اگست کو جڈسن کوئی چیز لے کر وہاں پہنچا تھا جو بظاہر دیکھنے میں کوئی لاش لگ رہی تھی۔

    جلد ہی پولیس نے وہاں سے ربیکا کی لاش برآمد کرلی جس کے بعد ملزم شوہر کو گرفتار کرلیا گیا۔ ملزم پر قتل کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم اس سے قبل بھی گھریلو تشدد میں ملوث رہا تھا، اسی سال اپریل میں اس نے بیوی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا تب ایک بچہ بھاگ کر پڑوسی کے گھر چھپ گیا تھا اور پڑوسی نے پولیس کو اطلاع دی تھی۔

  • نوجوان نے احرامِ مصرکی چوٹی پرچڑھ کرکیا کیا؟

    نوجوان نے احرامِ مصرکی چوٹی پرچڑھ کرکیا کیا؟

    قاہرہ: مصرمیں ایک مقامی شخص قاہرہ میں موجود اہرام مصرکی چوٹی پر چڑھ گیا،احرام مصر کی چوٹی پر موجود تکون توڑنے کے بعد اس نے وہاں سے زائرین پر پتھر اور لکڑیاں پھینکیں جس کے نتیجے میں سیاح اور زائرین خوف زدہ ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر ایک فوٹیج پوسٹ کی ہے جس میں ایک نوجوان کو احرام مصر کی چوٹی پرچڑھتے دکھایا گیا ہے۔ یہ نوجوان احرام مصر کی چوٹی پر چڑھنے کے وہاں سے پتھر پھینکنے لگا جس کے باعث وہاں پر موجود شہریوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔

    زائرین اور سماجی کارکنوں کاکہناتھاکہ احرام مصر کی چوٹی پر چڑھنے والے نوجوان کا ذہنی توازن درست نہیں لگتا۔نوجوان کی جانب سے سنگ باری کے باعث پولیس اسےپکڑنے میں پہلے تو ناکام رہی تاہم بعد میں پولیس نے اسے گرفتار کرلیا تھا۔

    یاد رہے کہ ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں، ایک مرتبہ ایک غیر ملکی جوڑا احرام کی چوٹی پرچڑھ گیا تھا جبکہ فحش فلموں کی ایک ویب سائٹ بھی ایک مرتبہ احرام کی چوٹی پر ایک فلم بھی شوٹ کرچکے ہیں۔

  • فیصل آباد: مہندی کی تقریب میں فائرنگ، 20 سالہ نوجوان جاں بحق

    فیصل آباد: مہندی کی تقریب میں فائرنگ، 20 سالہ نوجوان جاں بحق

    فیصل آباد: حیدرآباد ٹاؤن کے محلہ عثمان غنی میں مہندی کی تقریب میں فائرنگ سے 20 سالہ نوجوان جاں بحق ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق فیصل آباد کے حیدر آباد ٹاؤن کے رہائشی محنت کش لیاقت علی کا بیس سالہ بیٹا وقاص پیر کی رات محلہ عثمان غنی میں اپنے دوست یاسین کے بھائیوں کی مہندی کی تقریب میں شریک تھا کہ اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی۔

    فائرنگ کے دوران وقاص کی گردن میں گولی لگی جس کے بعد اُسے اہل خانہ اُسے الائیڈ اسپتال لے کر جارہے تھے کہ وہ جانبر نہ ہوسکا اور راستے میں ہی دم توڑ گیا۔

    تھانہ غلام محمد آباد پولیس نے دلہے اور اُس کے بھائیوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے شادی کے گھر سے 4 افراد کو گرفتار کیا تاہم مقتول وقاص کے والد لیاقت کی نشاندہی کے بعد چاروں کو رہا کردیا۔

    تدفین کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مقتول کے والد لیاقت علی کا کہنا تھا کہ پولیس نے اپنی مرضی سے دلہا اور اُس کے بھائیوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کرلیا۔  انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا کہ وہ اس قتل کا نوٹس لیتے ہوئے اصل ملزمان کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دلوائیں۔

    مقتول کے والد کا کہنا ہے کہ اُن کے بیٹے کی دو ماہ بعد شادی تھی۔

  • اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

    اعتزاز حسن نے خودکش بمبار سے مذاکرات کیوں نہیں کئے

    تحریر: سید فواد رضا

    پاکستان گذشتہ تیرہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان نے ہی برداشت کیا ہے جس میں جانی نقصان کا بے پناہ ہے مختلف اعداد و شمار کے مطابق اب تک 50 ہزار عام شہری اور تقریباً 10 ہزار فوجی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔

    ایک منٹ ٹھہرئیے ! کیا یہ سب افراد واقعی شہید ہیں؟ ہمارے ملک میں کچھ لوگوں نے طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دےدیا اس بات پر کافی لے دے ہوئی  لیکن وہ افراد اپنے موقف پر ڈٹے رہے دوسری جانب طالبان کے مخالف بھی اپنی بات پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ طالبان سے آہنی ہاتھ سے نپٹا جائے۔

    قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جمعرات کو ہنگو میں ایک پندرہ سالہ لڑکے اعتزاز حسن نے جرات اور بہادری کی شاندار مثال قائم کرتے ایک خودکش حملہ کو اسوقت دبوچ لیا جب وہ ہنگو میں واقع ابراہیم زئی اسکول پر حملہ کرنے جارہا تھا جہاں اسوقت دو ہزار کے لگ بھگ لڑکے اسمبلی کے لئے جمع تھے۔

    شہید اعتزاز حسن کا دوست قیصر حسین جو اس واقعے کا عینی شاہد  ہے بتاتا ہے کہ حملہ آور جو اسکول کے یونیفارم میں ملبوس تھا  اس نے ہم سے اسکول  کا پتہ پوچھا جس پر ہمیں اسپر شک گزرا اور جب اعتزاز نے آگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش کی تو اسنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

    اعتزاز حسن کی حوصلہ مندانہ شہادت کی خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ پورے ملک سے اسکا ردعمل آنے لگا اور قوم نے اپنے اس بہادر فرزند کے لئے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا مطالبہ تک کردیا لیکن سوال تو یہ ہے کہ اعتزاز کے ذہن میں وہ کیا سوچ تھی کہ جسکے زیر ِ اثراس نے حملہ آور کو دبوچ لیا اسے تو چائیے تھا کہ وہ وہی راستہ اختیار کرتا جو ہمارے ملک کے ذہین اور باصلاحیت سیاستدانوں نے تجویز کیا ہے یعنی مذاکرات کرتا ، حملہ آور سے پوچھتا کہ تمھارے مطالبات کیا ہیں ؟ کن شرائط پر تم یہ دھماکہ کرنے سے باز آجاو گے لیکن نہیں! اسنے وہی کیا جو جبلتِ انسانی کا تقا ضا ہے یعنی دفاعی حملہ۔

    وہ حملہ آور جو اسکے دو ہزار ہم مکتبوں کی جان لینے جارہا تھا اس نے آنکھیں بند کر کے اسے جانے نہیں دیا کہ چلو اسکے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہوگی یا اسکا کوئی عزیز کسی ڈرون حملے میں مارا گیا ہوگا لہذا یہ بھی خودکش حملہ کرکے اپنے انتقام کی آگ کو سرد کرلے بلکہ اعتزاز نے اسکو روک کر اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔

    میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کو بے پناہ شہرت ملی اور صدر مملکت ، وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اسکو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔

    راسف اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کا ایک پندرہ سالہ لڑکا تو یہ بات جانتا ہے کہ جب آگ اپنے گھر تک پہنچ جاتی ہے تو پھرصرف باتیں نہیں کی جاتیں بلکہ آگ بجائی جاتی ہے لیکن ہمارے کچھ ذہین سیاستدان اور دفاعی امور میں خود کو عقل ِ کل سمجھنے والے تجزیہ نگار ابھی بھی مذاکرات کی بین بجا کر سانپ کو رام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    مذاکرات کے حامی تمام افراد سے میری یہ دست بستہ التماس ہے کہ مذاکرات کرنے سے پہلے صرف ایک بار دہشت گردوں کی بربریت کے شکار شہید کے اہلِ خانہ سے بھی ملاقات کرلیں اوراگر ان لوگوں کے چہرے پر آپکو طالبان کا خوف نظر آئے تو پھر بیشک مذاکرات کریں لیکن اگر ان لوگوں کے حوصلے بلند ہوں تو پھر آپ اپنے اندرونی خوف اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات کا نقاب نا پہنائیں کیونکہ پاکستانی قوم کے بچے بھی اب اس بات سےاچھی طرح واقف ہیں کہ ان وحشی درندوں کو اب بزورِ قوت روکنا ہوگا اوراگرایسا نا ہوتا تو اعتزاز حسن بھی شاید شہادت کے بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کرتا