Tag: Zahir Jaffer

  • مجرم ظاہر جعفر نے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا

    مجرم ظاہر جعفر نے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا

    اسلام آباد: نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر نے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔

    درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا، غلطیوں سے بھرپور ایف آئی آر پر سزا دینا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے، جن شواہد کو پذیرائی دی گئی وہ قانونِ شہادت کے مطابق قابل قبول نہیں۔

    درخواست میں ظاہر جعفر نے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا، سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، اور درخواست گزار کو بری کرنے کا حکم دیا جائے۔

    یاد رہے کہ ظاہر جعفر کو نور مقدم قتل کیس میں ٹرائل کورٹ نے ایک جرم میں عمر قید اور دیگر میں سزائے موت سنائی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمر قید کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا تھا، ظاہر جعفر کو مجموعی طور پر 11 سال سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔

  • مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں خود کو بے گناہ قرار دے دیا

    مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں خود کو بے گناہ قرار دے دیا

    اسلام آباد : مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں خود کو بے گناہ قرار  دے دیا، عدالت کو تحریر بیان میں بتایا ہے کہ میرے گھر میں نور نے دوستوں کو ڈرگ پارٹی کیلیے بلایا، جب پارٹی شروع ہوئی تو میں اپنے حواس کھو بیٹھا، ہوش میں آیا تو پتہ چلا کہ نور کا قتل ہو گیا ہے، مجھے پولیس نے آکر بچایا۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ، ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل شہریار نواز عدالت میں پیش ہوئے۔

    ملزم ظاہر جعفر کے وکیل شہر یار نواز نے عدالت میں نور مقدم کے تعلق سے متعلق ویڈیوز اور ملزم کا تحریری جواب جمع کرایا ، جج نے استفسار کیا یہ یو ایس بی کس چیز کی ہے، جس پر شہریار نواز نے بتایا یو ایس بی میں ریلیشن شپ سے متعلق 2ویڈیوز ہیں۔

    نور مقدم کیس میں مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے تحریری بیان میں کہا کہ میں بے گناہ ہوں، مجھے اور ساتھیوں کوغلط طور پرکیس میں گھسیٹا گیا ، نور مقدم کے ساتھ لانگ ریلیشن شپ میں تھا۔

    ظاہر جعفر کا کہنا تھا کہ نور نے مجھے زبردستی امریکاکی پرواز لینے سے منع کیا، نور مقدم نےکہا میں بھی تمہارے ساتھ امریکاجانا چاہتی ہوں، جس کے لئے نور نےدوستوں کو فون کر کے ٹکٹ خریدنے کےلیےپیسے حاصل کیے۔

    مرکزی ملزم نے کہا ہم ائیرپورٹ کے لیے نکلے مگر نور نے ٹیکسی واپس گھرکی طرف کرادی، گھر میں نور نے اور دوستوں کو بھی ڈرگ پارٹی کے لیے بلایا، پارٹی شروع ہوئی تو میں اپنے حواس کھو بیٹھا، ہوش میں آیا تو مجھے باندھا ہوا تھا، مجھے پولیس نے آکر بچایا۔

    تحریری بیان میں ظاہر جعفر کا کہنا تھا کہ ہوش میں آنے پر پتہ چلا کہ نور کا قتل ہو گیا ہے، واقعہ میرےگھرہوااس لیےمجھےاوروالدین کو پھنسایا جارہاہے، پولیس کےآنے سے پہلے شوکت مقدم اوران کے رشتے دار ہمارے گھر پرتھے، شوکت مقدم اوران کےرشتےداروں سے پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔

    ملزم نے مزید کہا کہ نور کے فون کی سی ڈی آر صرف 20 جولائی صبح پونے 11 بجےکی حاصل گئی، سی ڈی آرسے پتہ نہیں چل سکتاکہ نور نے کس کو پارٹی میں مدعو کیا تھا۔

    دوران سماعت وکیل اسد جمال نے کہا ٹکٹ کی کاپی نہیں دی، جس پر وکیل شہریار نواز نے بتایا جی وہ بھی دے دی ہے۔

    وکیل مدعی نثار اصغر نے سوال کیا کیا ویڈیو کلپس ہمیں بھی مہیا کی جائے گی، وکیل اسد جمال نے کہا جی وہ آپ کو بھی مہیاکرا دیتے ہیں۔

    وکلا نے بتایا کہ سکندر زوالقرنین کل آئیں گے ،11 بجے تک پہنچ جائینگے، جس پر جج نے کہا کل نہیں بدھ کو آجائیں کیونکہ کل اوربھی ڈائریکشن کیس لگے ہیں۔

    ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ کے دلائل میں کہا ابتدائی ایف آئی آر میں صرف ظاہر جعفر ملزم تھا ، 24 جولائی کوبیان میں ذاکر ،والدہ ،ملازم اور تھراپی ورکس کا ذکر آیا، 8 اگست کے بیان میں طاہر ظہور اور جان محمد کو نامزد کیا گیا، ذاکر جعفر،عصمت ،افتخار،اور جمیل 24 کو گرفتار ہوئے۔

    ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ شوکت مقدم کا بیان عدالت میں پڑھا گیا ، نور نےکہا دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہوں جبکہ ظاہر نے کہا نورمیرے ساتھ نہیں ہے،اسکا ریکارڈ موجود نہیں ، یہ کہتے ہیں 19 کومعلوم ہوا بیٹی گھر میں 2دن سے نہیں تھی ، دکھ ہے ایک کی بیٹی گئی اور دوسرے کےبوڑھے باپ کوجیل میں ڈال دیا گیا۔

    بشارت اللہ نے مزید کہا کہ ڈی وی آر کے مطابق وہ خود گئی ،حبس بے جا میں نہیں رکھا گیا ، سی ڈی آر تمام ملزمان کا نہیں لیا گیا، تفتیشی افسرنے موقع سے کوئی فنگر پرنٹ نہیں لیے، ہمارے خلاف تو کوئی ثبوت نہیں سوائے سی ڈی آر کے۔

    وکیل نے مزید دلائل میں کہا کہ 27 جولائی کو 16 صفحات تھے جبکہ ذاکر جعفر کی سی ڈی آر ایڈٹ کی گئی ، سی ڈی آر ایڈٹ کی گئی کیونکہ والدین کو نامزد کرنا تھا، پانچ صفحات مدعی اور 3صفحات ملزم کے سی ڈی آر کے غائب ہیں، ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کی گئی ہے اور سی ڈی آر کےدینے والے کے دستخط نہیں ہیں ،جس نے ڈیٹا دیا اسکے دستخط ہی نہیں ہیں۔

    مرکزی ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ دسویں گواہ ڈاکٹر شازیہ کا بیان دیکھیں ، پہلا کیس ہے جس میں معلوم ہی نہیں پوسٹ مارٹم کس نے کیا، دوست محمد اے ایس آئی 11وان گواہ بھی برآمدگی کا گواہ ہے، یہ درست ہے کہ برآمدگی میمو پر میرے دستخط ہی نہیں ہیں۔

    وکیل نے کہا کہ انتطامی مشینری لگی ہوئی تھی عبوری ضمانت پر تھا گرفتار کر لیا گیا، ملزم عبوری ضمانت پر تھا تفتیشی نے اسے گرفتار کر لیا، جلدی میں کام کیا گیا لیکن برآمدگی میمو پر دستخط ہی نہیں کرائے، وکیل

    دلائل دیتے ہوئے بشارت اللہ کا کہنا تھا کہ 491کی درخواست دائرکی اس میں تفتیشی افسرنے مانا کہ میں نے گرفتار کر لیا، ایک تفتیشی افسر، ایک گواہ اور اسکے نام سے فردات بنا رہے ہیں، تینوں کی لکھائی مختلف اور دستخط بھی لیے۔

    وکیل کے مطابق بارہوں گواہ محمد جابر کہتا ہے7 فون کاڈیٹا لیا اس نےعدالت میں نمبر نہیں بتائے، جابر نےاپنے بیان میں نہیں بتایا کہ کونسے 7 فون نمبرز کا ڈیٹا اس نے دیا، چار چار دفعہ سی ڈی آر کا ڈیٹا بنا کر دیا گیا کسی کی مہر ہی لگا دیتے کہ کس نے ڈیٹا دیا۔

    مرکزی ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ دو ماہ بعد انکو ڈیٹا کیسے مل گیا پہلے سی ڈی آر کے ڈیٹا کا ذکر ہی نہیں تھا،14 جولائی کا ڈیتا بعد میں بنایا گیا سارا ڈیٹا خود تخلیق کیا گیا ہے، گواہ کیسے آکر کہہ سکتا ہے یہ وہی ڈیٹا ہے جو میں نے جاری کیا، سی ڈی آر کے ڈیٹا پر آئی ٹی کی مہر ہی نہیں، 22 ستمبر کو تفتیشی 161 کا بیان لکھتا ہے۔

    دوران سماعت جج نے وکلاء سے استفسار ملزم تو نہیں چاہیے، جس پر وکیل بشارت اللہ نےبتایا نہیں میرا ملزم یہاں پر موجود رہے، 22 ستمبر میں 14 اکتوبر کا ڈیٹا گواہ بتا رہا ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ 15ویں گواہ اےایس آئی زبیرمظہرنےملزم ،مقتولہ کی موجودگی ظاہر نہیں کی، زبیر مظہر نے بھی سارا کام تھانےمیں کیا ، اگر موقع پر کرتا تو ملزم اور مقتولہ کی موجودگی ظاہر کرتا،161 کا بیان کا گواہ کوئی اور ہے اور سرکار نے مدثر عالم کوبنایا یہ کوئی اور ہے۔

    جج نے ریمارکس دیئے کہ کیا تفتیش اس نے کی ہے، وکیل اسد جمال نے بتایا کہ انہوں نے تفتیش کو مان لیا ہے، نور مقدم کا ڈیٹا 20 جولائی صبح 10 بجے تک لیا گیاجو ایک صفحےکاہے، ہمارا ڈیٹا 56 صفحات پر مشتمل ہے، میں قصور وار ہوتا تو واپس آتا۔

    وکیل نے کہا کہ ذاکرجعفر 20 سے 23 تک شامل تفتیش ہوا ،24 کو کون سا ثبوت آیا کہ گرفتار کرلیا،22 جولائی کو اسلحہ کا فرد بنایا میں نے لائسنس پیش کیا، میری اورمدعی کی 20 جولائی کو10منٹ کی کال ہےعدالت کوکیوں آگاہ نہ کیا، تفتیشی افسرکہتاہے تفتیش میں مدعی نے نہیں بتایاکہ ذاکر جعفر سےکیا گفتگو ہوئی۔

  • ‘نور مقدم کو میں نے نہیں، میرے گھر میں کسی اور نے قتل کیا’

    ‘نور مقدم کو میں نے نہیں، میرے گھر میں کسی اور نے قتل کیا’

    اسلام آباد: ڈسٹرکٹ سیشن عدالت کی جانب سے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو 25 سوالات پر مشتمل سوال نامہ دیا گیا تھا، ملزم کے وکیل نے عدالت کو ملزم کی جانب سے جوابات فراہم کر دیے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے سوال نامے کے جوابات سے نور مقدم قتل کیس میں نیا موڑ آ گیا ہے، ملزم ظاہر جعفر پہلے دیے گیے بیان سے مکر گیا، مرکزی ملزم ظاہر جعفر، ملزم ذاکر جعفر اور ملزمہ عصمت آدم جی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    ملزم نے نئے بیان میں کہا کہ نور مقدم کو میں نے نہیں بلکہ میرے گھر میں کسی اور نے قتل کیا تھا، گزشتہ 6 ماہ سے مقتولہ میرے ساتھ رابطے میں نہیں تھی، 18 جولائی کو نور مقدم اپنی مرضی سے میرے گھر آئی تھی، میں نے نور مقدم کو اغوا نہیں کیا تھا۔

    ملزم نے کہا نور مقدم کے ساتھ میرا living ریلشن شپ تھا، نور مقدم کی مرضی سے ہمارا تعلق تھا اس وجہ سے ڈی این اے رپورٹ مثبت آئی، میرے فنگر پرنٹ جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والے آلۂ قتل پر نہیں تھے، برآمد پستول لائسنس شدہ تھا، پولیس نے مدعی سے مل کر کیس کا حصہ بنایا۔

    ظاہر جعفر نے کہا اسی وجہ سے پسٹل کی فرانزک رپورٹ پر میرے فنگر پرنٹس آئے، میرے فنگر پرنٹس پولیس نے اس وقت لیے جب میں ان کی حراست میں تھا، میرے فنگر پرنٹس پولیس نے قانونی طور پر ایس او پیز کے مطابق نہیں لیے، پراسیکیوشن کے شواہد کے مطابق کوئی ڈی وی آر جائے وقوع پر نہیں تھی۔

    بیان کے مطابق مقتولہ کے موبائل کے آئی ایم ای آئی اور فرانزک لیب رپورٹ مختلف ہے، میرا موبائل گرفتاری کے بعد تفتیشی افسر کے پاس تھا برآمد نہیں کیا، زیادہ تر اس کیس کی تفتیش تھانے میں بیٹھ کر کی گئی اور برآمدگی بنائی گئی، پولیس نے میرے گھر 20 جولائی کو سرچ کیا تو میرے کپڑے استعمال کیے۔

    ملزم نے کہا فنگر پرنٹس پولیس نے لیے اور غلط استعمال کر کے کیس میں ملوث کیا، آڈیو ویڈیو فوٹوگرامیٹری ٹیسٹ مجھے اس کیس میں پھنسانے کے لیے لیا گیا، 18 جولائی کو مقتولہ نے رابطہ کر کے ڈرگ پارٹی کا کہا تو میں نے منع کر دیا تھا لیکن 18 جولائی کی رات کو نور مقدم میرے گھر آ گئی، وہ منشیات ساتھ لائی تھی۔

    نور مقدم نے زبردستی ڈرگ پارٹی ارینج کی اور اپنے دوستوں کو بھی بلایا، 19 جولائی کو میں نے امریکا جانا تھا جس کا ٹکٹ کنفرم ہو چکا تھا، نور مقدم امریکا جانا چاہتی تھی، اس نے ٹکٹ کے لیے دوستوں سے پیسے مانگے۔ 20 جولائی نور مقدم نے دوستوں کو میرے گھر میں ڈرگ پارٹی پر بلایا، ظاہر جعفر کے والدین اور دیگر رشتہ دار کراچی میں عید کا تہوار منانے گئے تھے، ڈرگ پارٹی شروع ہوئی تو میں منشیات کے غلبے میں آ گیا، اور ہوش و حواس کھو بیٹھا۔

    جب میں ہوش میں آیا تو میں اپنے گھر میں بندھا ہوا تھا، کچھ دیر کے بعد پولیس یونیفارم اور سادہ کپڑوں میں لوگ آئے، تب مجھے معلوم ہوا کہ ڈرگ پارٹی میں موجود کسی نے نور کو قتل کر دیا ہے، بدقسمت واقعہ میرے گھر میں ہوا، اور اسی لیے مجھے اور میرے والدین کو اس جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا۔

    ملزم نے بیان میں مزید کہا کہ ایس ایس پی مصطفیٰ تنویر نے جائے وقوع کا ذکر کیا اور میڈیا کو منشیات کے متعلق بتایا، دباؤ کی وجہ سے ایس ایس پی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، نور مقدم سے برآمد منشیات کا ذکر غائب کر دیا گیا۔

    ملزم ظاہر جعفر سے 25 سوالات

    سیشن عدالت کی جانب سے سوال نامے میں مندرجہ ذیل سوالات کیے گئے:

    کیا آپ نے عدالتی کارروائی میں جمع کرائے گے شواہد کو سنا اور سمجھ لیا؟ پراسیکیوشن کے شواہد کے مطابق آپ نے 20 جولائی 2021 کو شام کے وقت اپنے گھر میں نور مقدم کو قتل کیا؟ آپ نے نور مقدم کا سر تن سے تیز دھار آلے سے الگ کیا اس بارے میں کیا کہیں گے؟ شواہد کے مطابق 18 جولائی سے 20 جولائی تک نور مقدم کو اپنے گھر میں اغوا کیے رکھا؟

    نور مقدم نے بھاگنے کی کوشش کی تو آپ نے اس کو گھر میں قید کر لیا اور اس کے ساتھ زیادتی کی؟ ڈی این اے رپورٹ میں مقتولہ کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہوئی ہے اس پر کیا کہیں گے؟ شواہد کے مطابق جائے وقوعہ سے چاقو برآمد ہوا جو کہ بعد ازاں فرانزک کے لیے لیب بھیجوا گیا کیا کہیں گے؟

    شواہد کے مطابق جائے وقوعہ سے آہنی مکا برآمد کیا گیا اور تفتیشی افسر نے اس کو فرانزک کے لیے بھیجا اس بارے میں کیا کہیں گے؟ شواہد کے مطابق جائے وقوعہ سے پستول اور ایک میگزین، چار عدد سگریٹ برآمد ہوئے، جنھیں فرانزک کے لیے بھیجا گیا کیا کہیں گے؟ تفتیشی افسر کو جائے وقوعہ سے خون ملا جس نے روئی سے اٹھا کر اسے لیبارٹری کے لیے بھیجا کیا کہیں گے؟

    پولیس نے آپ کے فنگر پرنٹس حاصل کرنے کے بعد میچ کرنے کے لیے لیبارٹری بھیجے آپ کیا کہیں گے؟ تفتیشی افسر نے ڈی وی آر سے فوٹیج حاصل کی اور کمپیوٹر آپریٹر کانسٹیبل مدثر نے اس ویڈیو کو محفوظ کیا جس کے کلپس بنائے اور فرانزک کے لیے بھیجا؟ تفتیشی افسر نے آپ کا اور شریک ملزمان عصمت ذاکر، ذاکر جعفر،گھریلو ملازمین، مقتولہ نور مقدم اور مدعی مقدمہ کا کال ریکارڈ ڈیٹا حاصل کیا؟ تفتیشی افسر نے آپ کی نشان دہی پر مقتولہ نور مقدم کا اور خود آپ کا موبائل فون آپ کے گھر سے برآمد کیا؟

    شواہد کے مطابق مقتولہ نور مقدم کا 21 جولائی کو پوسٹ مارٹم کیا گیا، جس کی رپورٹ کے مطابق مقتولہ کو موت سر دھڑ سے الگ کرنے کی وجہ سے ہوئی؟ پوسٹ مارٹم کے بعد مقتولہ کے خون آلود کپڑے تفتیشی افسر کے حوالے کیے گئے تھے؟ شواہد کے مطابق تفتیشی افسر نے آپ کی خون آلود شرٹ برآمد کی اور پارسل بنا کر لیبارٹری بھیجا؟

    شواہد کے مطابق ڈاکٹر حماد نے آپ کا سیکچوئل فٹنس کا ٹیسٹ لیا اور ٹیسٹ لے کر نمونے کو ڈی این اے کے لیے بھجوایا؟ شواہد کے مطابق آپ کے فنگر پرنٹس پستول کی میگزین کے ساتھ میچ ہوئے ہیں؟ شواہد کے مطابق آڈیو اور وڈیو فرانزک کے لیے فوٹوگرامیٹری کی رپورٹ مثبت آئی ہے؟ شواہد کے مطابق ڈی این اے رپورٹ بھی مثبت آئی؟

    عدالت نے مرکزی ملزم سے سوال پوچھا کہ پولیس نے آپ کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا؟ اور استغاثہ کے گواہ آپ کے خلاف کیوں پیش ہوئے؟ کیا اپنے حق میں شواہد پیش کرنا چاہیں گے؟ کیا آپ اس کے علاوہ کچھ کہنا چاہیں گے؟ کیا اپنا بیان حلف پر قلم بند کرنا چاہ رہے ہیں؟

  • نور مقدم قتل کیس میں ڈرامائی موڑ ، ملزم ظاہر جعفر کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش

    نور مقدم قتل کیس میں ڈرامائی موڑ ، ملزم ظاہر جعفر کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش

    اسلام آباد : نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، مدعی شوکت مقدم کےوکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ ملزم کے خلاف شواہد اس قدر مضبوط ہیں کہ امیدہے کہ اسے سخت سزا ملے گی۔

    تفصیلات کے مطابق نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کو سزا سے بچانے کیلئے ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے ذوالقرنین حیدر نے کیس کے حوالے سے بتایا کہ کیس کا ٹرائل تیزی سے جاری ہے اور گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، جس میں کئی گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے جاچکے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے کا کہنا تھا کہ کیس میں ایک نیا موڑ آیا ہے کہ وکیل کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ، جس میں ملزم ظاہر جعفر کو ذہنی معذور قرار دینے کی کوشش کی گئی۔

    ذوالقرنین حیدر نے مزید بتایا گذشتہ سماعت میں ایک گواہ نے بیان میں کہا تھا کہ جب واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد وہاں پہنچے تو نور مقدم کا سر دھڑ سے الگ پڑا تھا اور 4 افراد نے ملزم ظاہر جعفر کو پکڑا ہوا تھا۔

    دوسری جانب اس حوالے سے مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں ملزم کے ذہنی مریض ہونے کی درخواست شروع میں دی جاتی ہے ، ابھی کیس اپنے انجام کے قریب ہے۔

    وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ملزم کوبچانےکےلئے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کےتحت یہ درخواست دی گئی لیکن یہ آخری حربہ تھا، میرا خیال ہےکہ ان کا یہ حربہ ناکام ہو جائے گا۔

    مدعی وکیل نے مزید کہا ملزم کےخلاف شواہداس قدر مضبوط ہیں کہ امیدہے کہ اسے سخت سزا ملے گی۔

  • نور مقدم قتل کیس:  ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ کل سنایا جائے گا

    نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ کل سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو کل سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی سیشن عدالت میں نور مقدم کے قتل کیس میں ملز م ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، دوران سماعت ملزمان کے وکلا اور پراسیکیوشن نے درخواست ضمانت پر دلائل دئیے۔

    عدالت میں ملزمان کے وکلا کی جانب سے مختلف کیسوں اور فیصلوں کا حوالے دیا گیا ، عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    ایڈیشنل سیشن جج محمد سہیل نے کہا کہ درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

    خیال رہے کہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں قید ہیں جبکہ عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملز م ظاہر جعفر کو 14روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

    واضح رہے کہ عید کی رات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے سیکٹر ایف سیون سے ایک سربریدہ لاش ملی تھی، جسے سابق سفیر شوکت مقدم کی 27 سالہ بیٹی نور مقدم کے نام سے شناخت کیا گیا۔

    پولیس کے مطابق ملزم ظاہر جعفر نے نور کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا بعد ازاں اس کا سر دھڑ سے الگ کردیا تھا۔

    پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مقتولہ کی موت دماغ کو آکسیجن سپلائی بند ہونے سے ہوئی، مقتولہ کے جسم پر تشدد کے متعدد نشانات بھی پائے گئے، ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کیا، جس کے بعد پولیس نے تصدیق کی تھی کہ جرم کے وقت ملزم نشے میں نہیں تھا جبکہ دماغی طور پر بھی وہ بالکل صحت مند ہے