Tag: zia ul haq

  • سابق صدر جنرل ضیا الحق کو گزرے 31 برس بیت گئے

    سابق صدر جنرل ضیا الحق کو گزرے 31 برس بیت گئے

    آج پاکستان کے چھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق کی 31 ویں برسی ہے،وہ 17 اگست 1988 میں طیارہ حادثے میں انتقال کرگئے تھے، ان کے دور میں افغان جہاد کا آغاز ہوا تھا جو آج تک خطے کے امن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

    جنرل ضیا الحق نے سنہ 1977 میں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں ، وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کے لیے ایک معمہ ہے۔ وہ تادمِ مرگ، سپہ سالار اورصدارت، دونوں عہدوں پر فائزرہے ہیں۔

    سابق صدرمملکت اورسابق چیف آف آرمی سٹاف، اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1945ء میں فوج میں کمیشن ملا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں اور آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹرمقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولری رجمنٹ کی قیادت کی۔

    انہوں نے اردن کی شاہی افواج میں بھی خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں انہیں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اورپھربریگیڈیر بنادیا گیا۔ 1973 میں میجرجنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرترقی دے کرکورکمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پرترقی پاکرپاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    سنہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اورذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابترہوگئی۔ پیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا،تاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اورمارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے5 جولائی 1977 کو منتخب حکومت پر’آپریشن فیئر پلے‘کے نام سے شب خون مارکراقتدارپرقبضہ کرلیا۔

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف اور صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ 90 دن بھی طوالت پا کر11سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شدید مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو گرفتارکرلیاگیا اوران پرنواب احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائی کورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

    آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ،ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اورباربارالیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں انہوں نے اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔

    فروری 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پرآٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پرنااہلی اوربدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پرپانی پھرگیا ہے۔

    جنرل ضیا کے دورمیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے‘ جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاِسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیارکرکے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج ان کی موت کے 31 سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اورمنشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑرہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اور امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے اور ان کی گیارہ سالہ آمریت کا باب بند ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے طیاروں میں آم کی پیٹی میں بم رکھا گیا تھا۔

  • لاڈلہ وہ ہے جسے ضیاء دور میں چوسنی دے کر پالا گیا، عمران خان

    لاڈلہ وہ ہے جسے ضیاء دور میں چوسنی دے کر پالا گیا، عمران خان

    لاہور : پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ لاڈلہ وہ ہے جسے ضیاء دور میں چوسنی دے کر پالا گیا اوربی بی کیخلاف آئی جےآئی بنوائی گئی، جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ فوج کوکسی مداخلت کی ضرورت ہے نہ ہم مطالبہ کریں گے۔

    ان خیالات کا اظہار دونوں رہنماؤں نے لاہور میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کی، اس موقع پر ملک کی سیاسی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ جب ماڈل ٹاﺅن کا سانحہ سب نے ٹی وی پر براہ راست دیکھا، انتہائی دلخراش مناظر تھے جس طرح 14 بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلایا گیا۔

    عمران خان نے کہا کہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے ساتھ ہیں، طاہرالقادری جو بھی فیصلہ کریں گے پی ٹی آئی طاہرالقادری کا بھرپور ساتھ دے گی، یہ سیاسی اتحاد نہیں بن رہا بلکہ ایک انسانی معاملہ ہے، اس لیے پی اے ٹی کا ساتھ دے رہے ہیں تاکہ آئندہ کوئی پولیس کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرے۔

    انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس اب شریف فیملی کی پولیس بنی ہوئی ہے، شہبازشریف کا حکم نہ ہوتا تو پولیس کس طرح قتل عام کرتی؟

    سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بیان پر رد عمل میں عمران خان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی مجھے کیوں نکالا کی فریاد آج پھرسنی ہے، ساری زندگی ایک ہی لاڈلہ رہا ہے جس کا نام نوازشریف ہے۔

    لاڈلہ وہ ہے جسے ضیاء دور میں چوسنی دے کر پالا گیا اوربی بی کیخلاف آئی جےآئی بنوائی گئی،اسی لاڈلے نے فاروق لغاری کے ساتھ مل کر بی بی کی حکومت گرائی تھی۔

    عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ یہ لوگ سیاست دان نہیں مافیا ہیں ان کا مائنڈ سیٹ ہی ایسے چلتا ہے، یہ مافیا نہ ہوتا تو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے اندر انصاف مل جاتا، مافیا جو مرضی کرلے ہم ان کیخلاف لڑتے رہیں گے۔

    سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ سارے ادارے مفلوج ہیں یہ سب کو کنٹرول کرتے ہیں، مافیا نے اداروں میں اپنے لوگوں کو لگایا اورچیزیں کنٹرول کرلیں، سپریم کورٹ نے انہیں سسلین مافیا کہا تھا۔

    چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ خواجہ آصف نے نوازشریف کوکہا تھا کہ فکرنہ کریں عوام پاناما کو جلد ہی بھول جائیں گے، ان لوگوں نے اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کو بھی پوری طرح دبانے کی کوشش کی لیکن اب رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے جس میں ذمہ داروں کا تعین بھی ہوگیا ہے۔

    عمران خان نے مزید کہا کہ شہبازشریف کےڈراموں کاوقت ختم ہوگیا، 30 سال سے شریف خاندان حکومت میں ہے انہوں نے کیا کیا ؟ شہبازشریف بتائیں کہ حسن شریف 600 کروڑ کے گھر میں کیسے رہتا ہے؟ صرف شریف خاندان کے بچے ارب پتی بنے اور کوئی کیوں نہیں؟ منی لانڈرراور کرپٹ عناصر سےمفاہمت نہیں مک مکا ہوتی ہے۔

    پولیس نے قتل عام کیا اور ایک بھی معطل نہیں ہوا، طاہرالقادری

    اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن میں دن دہاڑے قتل عام ہوا اور ایک شخص بھی معطل نہیں ہوا، ہزارکے قریب پولیس اہلکار قتل عام کررہے تھے اورایک شخص بھی جیل نہیں گیا، 45تھانے اور 12 کمپنیوں کو وزیراعلیٰ پنجاب کی منظوری کے بغیر کیسے طلب کیا جاسکتا ہے؟

    انہوں نے کہا کہ پاک فوج کو کسی مداخلت کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہم اس کا مطالبہ کریں گے، ہم عوامی دباؤ سے مطمئن ہیں امید ہے دباؤ کا اثر دنیا دیکھے گی۔

    طاہرالقادری نے کہا کہ ایک بھائی پاناما پرگیا اور انشااللہ دوسرے بھائی کو ماڈل ٹاؤن پرسزا ملے گی، پوری قوم کامطالبہ ہے کہ شریف برادران کو گھرجانا ہوگا، عمران خان کا شکرگزارہوں کہ انہوں نے ہم سے اظہار یکجہتی کیا۔

    میرا نام ای سی ایل میں ڈال دیں گے تویہ بہت اچھی بات ہے، ای سی ایل میں نام ڈالنے سے باہر کی مصروفیات منسوخ ہوجائیں گی، خان صاحب کا اپنا کندھا مضبوط ہے انہیں میری ضرورت نہیں۔


    مزید پڑھیں: میرے کالج دور کا حساب ہو رہا ہے، لاڈلے کو چھوڑ دیا گیا، نواز شریف


    ڈاکٹر طاہرالقادری کا مزید کہنا تھا کہ تیس دسمبر کو آل پارٹیزکانفرنس ہورہی ہے، اے پی سی میں آئندہ کا لائحہ عمل مرتب دیا جائے گا اور اسی پرعمل ہوگا۔

  • بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی کا یوم سیاہ

    بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی کا یوم سیاہ

    پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹے آج 39 برس بیت گئے۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بر طرف کر کے ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کیا تھا۔

    ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی آج یوم سیاہ منائے گی۔

    جنرل ضیاء الحق
    اخباری شہ سرخی
    جنرل ضیاء الحق کے حکم نامے کا عکس

    سنہ 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی کو ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو جیل میں قید کردیا اور بعد ازاں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

    سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو

    آئین کی معطلی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ملک کی سیاسی بنیادیں ہل گئیں اور 11 سال تک عوام پہ طویل آمرانہ قیادت مسلط کردی گئی جس کے دور حکومت میں جمہوریت پسندوں پر جیلوں میں کوڑے برسائے گے۔

    جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے ملک میں 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا جو 8 سال کے طویل انتظار کے بعد وفا ہوا۔

    سنہ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بھی جنرل ضیاء نے گھر بھیج دیا۔

    جنرل ضیاء کا آمرانہ دور حکومت 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے نزدیک ایک فضائی حادثے کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچا۔

    حادثے کا منظر

    جنرل ضیاء الحق کے دور کے اہم واقعات

    برطرف وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو 7 اپریل 1979 میں عوامی اور عالمی مخالفت کے باوجود پھانسی کی سزا دے دی گئی۔

    دسمبر 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا جس کے خلاف جنرل ضیاء الحق نے افغان جہاد کی شروعات کی اور ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی بھرتی کرنا شروع کیے۔

    سنن 1981 میں جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ پر پابندی عائد کرتے ہوئے مجلس شوریٰ تشکیل دی اور اسے ملک کے تمام امور کا نگہبان قرار دیا۔

    سنہ 1984 میں جنرل ضیاء نے ریفرنڈم کے ذریعے صدر مملکت کا عہدہ حاصل کیا۔

    سنہ 1985 میں 8 سال پرانا وعدہ وفا کرتے ہوئے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔

    محمد خان جونیجو

    سنہ 1988 میں 29 مئی کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو بھی برطرف کردیا گیا۔


     ٹوئٹر پر ’یوم سیاہ‘ مقبول

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی یوم سیاہ کا ٹرینڈ مقبول رہا اور مختلف شخصیات نے اس دن کو مختلف انداز سے یاد کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کو آنسو بہاتا دیکھ کر ضیاء الحق کی یاد آگئی، سراج الحق

    نوازشریف کو آنسو بہاتا دیکھ کر ضیاء الحق کی یاد آگئی، سراج الحق

    لاہور : امیرجماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ نواز شریف کو آنسو بہاتے دیکھا تو ضیاء الحق یاد آگئے،عدالت چاہے تو معاملہ 25 دن میں طے کرسکتی ہے، وزیراعظم کے بعد اپوزیشن کا بھی احتساب ہوگا، دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی کرپشن سے پاک کرنا ہوگا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں جماعت اسلامی کے تحت جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ کرپشن پر اپوزیشن سے بھی حساب لیا جائے لیکن پہلے وزیراعظم اور ان کے ٹولے کا احتساب ہوگا، ضیاءالحق روتے تھے کہ میں ریفارمز نہیں لاسکا، پھر نواز شریف کو بھی روتے دیکھا، ماضی کی طرح یہ صرف انکوائری رپورٹ نہ ہو، کمیٹی کو چاہیئے کہ 25 دن میں رپورٹ مکمل کرے اور سپریم کورٹ فیصلہ کرے۔

    سینیٹرسراج الحق نے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں نوازشریف کو ایک جلسے میں آنسو بہاتے دیکھا تو ضیاء الحق یاد آگئے۔

    انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں جب بھی ایسے حالات پیدا ہوئے تو ڈکٹیٹر آجاتا ہے،پہلے بھی کہا تھا کہ معاملے کو گراؤنڈ سے زیادہ عدالت میں حل ہونا چاہئیے، ہم نے کوشش کی کہ خون خرابہ نہ ہو، تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کبھی مثبت نتائج نہیں آئے۔

    امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ ایسے حالات میں ڈکٹیٹرز آجاتے ہیں اور جب ڈکٹیٹر آتا ہے تو پھر آئین اور قانون کو الماری میں رکھ دیا جاتا ہے،ابھی لوہا گرم ہے، قوم عدلیہ کی پشت پر ہے، اب وقت ہے کہ اسے با معنی بنایا جائے اگر سنگاپور اور ہانگ کانگ کرپشن سے پاک ہوسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں ہوسکتا؟

  • جنرل ضیا نے نواز شریف کے ذریعے لوگوں کو خریدا، عمران خان

    جنرل ضیا نے نواز شریف کے ذریعے لوگوں کو خریدا، عمران خان

    تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل ضیا الحق کو ایک شخص ملا جو لوگوں کو خریدنے میں مہارت رکھتا تھا اور وہ نواز شریف ہے، اس نے ججوں اور صحافیوں اور سیاست دانوں کو خریدا۔


    Imran Khan comes down hard on MQM chief Altaf… by arynews

    جہلم میں کھیوڑہ کے مقام پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرپشن سن 85ء سے آئی، کرپشن نے ادارے ختم کردیے، پامانا لیکس ہم نے نہیں غیر ملکیوں نے کیں، اداروں کو آزاد کیا جائے اگر ادارے آزاد ہوگئے تو کرپشن ختم ہوجائے گی، شریف خاندان نے پنجاب پولیس کو ختم کرکے رکھ دیا۔

    انہوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا اگر انہوں نے تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لی تو ملک عظیم بن جائے گا۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ہمارے صدر کا ایئرپورٹ پر استقبال کرتا تھا افسوس کہ اب ہمارا وزیراعظم اب پرچیاں لکھ لکھ کر بات کرتاہے

    انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا احتساب کیا جائے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی، پانچ ماہ ہوگئے نواز شریف نے جواب نہ دیا۔

    عمران خان نے کہا کہ نواز شریف جواب دیں کہ انہوں نے مودی کے بیانات کی مخالفت میں بیان جاری کیوں نہ کیا،مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے لیکن وزیراعظم کچھ نہ بولے،

    چیئرمین پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم قائد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قائد ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑے ہونے والے پاکستان کے ساتھ سیاست کیسے کرسکتے ہیں، پارٹی سربراہ ایسی بات کرے تو اسے نہیں چھوڑا جاتا، قائد متحدہ کے خلاف برطانوی حکومت کو باضابطہ درخواست دی جائے۔

  • قومی ہیروز کو پاک فوج کاسلام ! 3شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین

    قومی ہیروز کو پاک فوج کاسلام ! 3شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین

    کراچی: پاکستان میں انسانیت کومتعارف کرانے والے عظیم بے مثال انسان عبدالستار ایدھی کو پورے فوجی اعزاز میں انیس توپوں کے ساتھ سپردخاک کردیا ۔

    ملکی تاریخ میں اس سے پہلے صرف تین شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی، قومی پرچم میں لپٹے جسد خاکی کو پاک بحریہ کے سیکیورٹی حصار میں گن کیرج وہیکل پر میٹھا در سے نیشنل اسٹیڈیم پہنچایا گیا۔

    4

    نیشنل اسٹیڈیم میں درویش صفت ایدھی صاحب کے جسد خاکی کو آرمی کے جوان پورے اعزاز کے ساتھ جنازے کے مقام پر لائے، جہاں مولانا احمد خان نیازی کی امامت میں جنازہ پڑھایاگیا۔

    تینوں مسلح افواج کےسربراہان نے عبدالستار ایدھی کو سلامی پیش کی، پاک فوج کے مسلح جوانوں نےقوم کے محسن کو توپوں کی سلامی میں رخصت کیا، انسانیت کے خادم عبدالستار ایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا۔

    5

    سب سے پہلے بابائے قوم محمد علی جناح کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی، قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی وہ پہلی شخصیت تھے جن کی میت گن کیرج وہیکل پر لائی گئی تھی، بابائے قوم کاجسد خاکی لحد میں اتارتے وقت پاک فوج نےگارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔

    3

    دوسری مرتبہ یہ اعزاز پاک فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کونصیب ہوا، انہیں بھی فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا تھا۔

    1

    عبدالستارایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔

    6

    عسکری روایات کے مطابق فوجی اعزاز کے طور پر جنازے کو گن کیرج وہیکل پر لایا جاتا ہے، یہ روایت برطانیہ کے شاہی توپ خانے نے قائم کی تھی، برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کا تابوت بھی گن کیرج وہیکل پر ہی لایا گیا تھا۔

    2

     

    عموماً یہ اعزاز ایسی شخصیت کو دیا جاتا ہے جو اپنی وفات کے وقت سربراہ مملکت ہو، تاہم عبدالستار ایدھی کو سربراہ مملکت نہ ہونے کے باوجود یہ اعزاز دیا گیا۔

    گن کیرج وہیکل

    7

     

  • فوجی آمرضیا الحق کے طیارہ حادثے کو 27 سال مکمل

    فوجی آمرضیا الحق کے طیارہ حادثے کو 27 سال مکمل

    آج پاکستان کے سابق فوجی آمراورچھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق کی ستائیس ویں برسی ہے وہ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ تھے جنہوں نے 1977ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کیلئے ایک معمہ ہے۔ وہ تادمِ مرگ، سپاہ سالار اورصدارت، دونوں عہدوں پر فائزرہے ہیں۔

    ZIA UL HAQ

    سابق صدرمملکت اورسابق چیف آف آرمی سٹاف، اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سن 1945ء میں فوج میں کیمشن ملادوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں اور آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹرمقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولری رجمنٹ کی قیادت کی۔ انہوں نے اردن کی شاہی افواج میں بھی خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں انہیں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اورپھربریگیڈیر بنادیا گیا۔ 1973 میں میجرجنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرترقی دے کرکورکمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پرترقی پاکرپاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اورذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابترہوگئی۔ پیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہواتاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اورمارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے منتخب حکومت پر’’آپریشن فیئر پلے‘‘کے نام سے شب خون مارکراقتدارپرقبضہ کرلیا۔

    ZIA UL HAQ

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف اور صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ 90 دن بھی طوالت پا کر11سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شدید مذاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو گرفتارکرلیاگیا اوران پرنواب احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائیکورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔

    ZIA UL HAQ

    اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اورباربارالیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں انہوں نے اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔

    فروری 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پرآٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پرنااہلی اوربدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پرپانی پھرگیا ہے

    ZIA UL HAQ

    جنرل ضیا کے دورمیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیارکرکے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج ان کی موت کے چھبیس سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اورمنشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑرہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اورامریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکرجاں بحق ہوگئے۔

  • تحریکِ طالبان پنجاب نے ہتھیارڈال دئیے

    تحریکِ طالبان پنجاب نے ہتھیارڈال دئیے

     پشاور: کالعدم تحریک ِ طالبان پنجاب نے ملک بھر میں عسکری کاروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ، تجزیہ نگاروں کے مطابق آُپریشن ضرب ِعضب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی یہ اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

    اے آر وائی نیوز پشاور کے بیورو چیف ضیا الحق کے مطابق تحریک طالبان پنجاب کے امیر عصمت اللہ معاویہ نے ملک بھرمیں عسکری کاروائیاں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سرینڈر کردیا ہے۔

    ذرایع کے مطابق عصمت اللہ معاویہ کے ہمراہ تحریک ِ طالبان پنجاب کی پوری قیادت نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا ہے، اوراب تحریکِ طالبان پنجاب دعوت و تبلیغ کا کام انجام دے گی اورساتھ ہی ساتھ سیلاب زدگان کے لئے جاری امدادی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے گی۔

    عصمت اللہ معاویہ کاکہنا ہے کہ ملا فضل اللہ غیر شرعی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور وہ بھتہ خوروں کی سرپرستی بھی کرتے ہیں اسی بناء پر ان سے علیحدگی اختیار کی۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ علماء اور عمائدین سے مشاورت کے بعد کیا گیا ہے اور ساتھ ہی انہوں دیگر طالبان گروہوں سے اپیل بھی کی ہے کہ وہ بھی عسکری کاروائیاں بند کر کے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کریں۔

    ممتاز تجزیہ نگار حسن عسکر ی نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپریشن ضرب ِ عضب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اب تک کی یہ سب سے بڑی کامیاببی ہے اور یہی جمہوری طریقہ ہے کہ اگرکوئی گروہ کسی فکر کا قائل ہے تو اس کا عوام میں پرچار کرے اوررائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرکے پارلیمنٹ میں آئےاور اپنے مطالبات پر عمل درآمدکروائے۔