جکارتہ : پاکستانی شہری زوالفقار علی کی رحم کی اپیل مسترد آج رات پھانسی دے دی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق انڈنیشیا میں قید پاکستانی شہری ذوالفقار علی کی رحم کی اپیل مسترد کردی گئی ہے جس کے بعد آج 14 افراد کو پھانسی دے دی جائے گی، انڈونیشین حکام نے تصدیق کی ہے کہ آج رات 14 افراد کو پھانسی دے دی جائے گی، پھانسی کی سزا پانے والے افراد کا تعلق بھارت، نائیجیریا، رمباوے اور انڈنیشیاء سے ہے۔
ذوالفقار علی کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ جاری ہے جس میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’’حکمران سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ذوالفقار علی کی پھانسی کو رکواتے ہوئے اُسے وطن واپس لایا جائے‘‘۔
اے آر وائی پر خبر نشر ہونے کے بعد اعلیٰ حکام نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے انڈنیشیاء میں مقیم پاکستان سفیر زاہد رضا کو اس مسئلے کو انڈونیشن حکام کے سامنے اٹھانے کی ہدایت کی گئی تھی، جس کے بعد پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ناظم الامور نے اس معاملے کو وہاں کی حکومت کے سامنے اٹھایا اور انڈونیشیاء کی حکومت نے معافی کی اپیل مسترد کردی۔
زاہد رضا نے انڈونیشین حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے سے متعلق ذوالفقار علی کے اہل خانہ کو آگاہ کردیا ہے، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی جانب سے بھی انڈونشیا کے حکام سے سزا پانے والے افراد کے حوالے سے رحم کی اپیل کی گئی تھی تاہم اُسے بھی مسترد کردیا گیا ہے۔
پاکستانی سفارت کار نے مزید بتایا کہ ذوالفقار علی کو منشیات کے الزام میں جمعہ 29 جولائی کو وسطی جاوا کے جزیرے نوساکا بنگن کی جیل میں پھانسی دے دی جائے گی۔
یاد رہے انڈونیشیاء کی حکومت نے بتایا ہے کہ سزا پانے والے تمام افراد منشیات کے گھناونے کام میں ملوث تھے جن پر جرم ثابت ہونے کے بعد قانون کے مطابق سزائے موت دی جارہی ہے۔
آج عالمِ اسلام حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا یوم شہادت منارہا ہے، آپ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے،19 رمضان40 ہجری کو کوفہ میں ابن ملجم نامی ایک خارجی نےآپ کو زہر آلود تلوار سے دوران نماز ایسی کاری ضرب لگائی تھی کہ جس سے آپ جانبر نہ ہوسکے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپ کا شماراسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں ہوتا ہے۔
روضہ حضرت علیؑ – نجف عراق
آپ کے والد حضرت ابو طالبؑ اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے 13 سال کے سن میں اسلام قبول کیا اور مکے میں پیش آںے والی تمام مشکلات میں پیغمبر اسلام کے ہم رکاب رہے۔
ہجرت کی شب آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اپنے پاس موجود تمام امانتیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کرکے مدینے روانہ ہوگئے اور آپ تلواروں کی چھاؤں میں رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کی چادر اوڑھ کر سوگئے۔
مدینے میں مواخات کے موقع پر جب رسول اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین کو انصار کا بھائی قرار دیا تو کہا کہ ’’اے علی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو اور تمھیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی لیکن یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔
ہجرت کے بعد جب جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہر معرکے میں آگے آگے رہے یہاں تک کے خیبر کی سخت ترین جنگ میں انہیں لشکر اسلام کا علمدار مقرر کیا گیا۔
قلعہِ خیبر
جنگ ِ احد میں جب گھمسان کا رن پڑا تو آپ کے ہاتھ میں پے درپے تلواریں ٹوٹیں جب آخری تلوار ٹوٹی آسمان صے حضرت جبریل ایک تلوار لے کر رسول خدا صلی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے جو کہ انہوں نے حضرت علی کو مرحمت فرمائی۔ اس تلوار کا نام ’’ذوالفقار‘‘ہے اور یہ کربلا تک آپ کے فرزند امام حسین کی ملکیت رہی اور اس کے بعد عوام سے اوجھل ہوگئی۔
ذوالفقار
آپ کے دستِ مبارک سے اسلام کے بدترین دشمن جن میں شیبہ، انتر ، مرحب ، حارث اور عمر ابن عبدوود جیسے افراد شامل ہیں جہنم واصل ہوئے۔
پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا عقد اپنی چہیتی بیٹی جنابِ فاطمہ علیہ السلام سے کیا جن سے آپؑ کوجنابِ حسنین کریمین اور جنابِ زینب جیسی عزت ماب ہستیوں کے والد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
آپ کے مشہور القاب ابوالحسن، ابوتراب اسد اللہ الغالب، حیدر ِکرار، صاحب الذوالفقار، خیبر شکن اور امیر المومنین ہیں۔
جب عیسائیوں سے مباہلے کا مرحلہ آیا تو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنا نفس قرار دیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ساری زندگی دین کی سربلندی کے لئے گزری آپ کاتبِ وحی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اور پیغمبرِ اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی تمام ترخط وکتابت اور معاہدوں کے مسودے تحریر کرنا بھی آپ کی ہی ذمہ داری تھی۔
پیغمر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پرغدیرِ خم کے میدان میں آُپ کو عوام پر اپنا نائب مقرر کیا تھا۔
آپ قران اور فقہ کے بلند پایہ عالم تھے جس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن عباس، محمد بن ابی بکر، اور عبداللہ ابن عمر جیسے بلند پایہ عالمِ حدیث آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ خطبات پر مشتمل کتاب کا نام نہج البلاغہ ہے جسے عالم اسلام میں اہم حیثیت حاصل ہے خصوصاً مالک اشتر کو جب مصر کا گورنر نامزد کیا تو ایک طویل ہدایت نامہ تحریر کیا جسے کسی بھی جدید فلاحی مملکت کے آٗینکی بنیاد تصور کیا جاسکتا ہے۔
حضرت علیؑ کے ہاتھ کا لکھا قران
حضرت علی کرم اللہ وجہہ 35 ہجری کے شورش زدہ دورمیں اکابرین اسلام کے اصرار پر خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ، یہ سارا دور تنازعات سے بھرپور رہا جس میں خوارج نامی فتنہ انتہائی اہم تھا جس کی سرکوبی کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دارالخلافہ مدینے سے کوفہ منتقل کرنا پڑا۔
جنگ صفین کے بعد 19رمضان 40 ہجری کو شام سے آئے ایک شقی القلب شخص عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر پر زہر بجھی تلوار سے وارکیا جو کہ فوری جسم میں سرایت کردیا۔
مسجد کوفہ – عراق
زہر کےاثر سے 3 دن جانکنی کی حالت میں رہنے کے بعد 21 رمضان کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہرنجف میں مرجع الخلائق ہے۔
آپ عالم بالعمل تھے اور آپ کا سب مشہور قول ہے کہ ’’ میں جنت کے لالچ یا جہنم کے خوف سے اپنے رب کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ وہ (اللہ) عبادت کے لائق ہے‘‘۔
آج عالمِ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یومِ ولادت باسعادت منارہا ہے،آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور خلیفہ راشد چہارم تھے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، آپ کا شماراسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں ہوتا ہے۔
آپ کے والد حضرت ابو طالبؑ اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔
آپ کی پرورش یوں بھی مبارک تھی کہ وہ تمام کے تمام ایامِ، دورِ شیر خوارگی چھوڑ کر حضور اکرم صلی علیہ وسلم کے زیرِ سایہ رہی۔ وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضور ان کو تنہا نہیں چھو ڑتے تھے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے 13 سال کے سن میں اسلام قبول کیا اور مکے میں پیش آںے والی تمام مشکلات میں پیغمبر اسلام کے ہم رکاب رہے۔
حضرت علی ؓ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔
حضرت علی سے منسوب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں ۔
علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں۔
میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے
تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علیؓ ہے۔
علیؓ کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی۔
علیؓ مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔
وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، حضرت علیؓ کا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔
جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا ۔
آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔
حضرت علی علیہ السّلام کو 19 رمضان40ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا، زہر کےاثر سے 3 دن جانکنی کی حالت میں رہنے کے بعد 21 رمضان کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہرنجف میں مرجع الخلائق ہے۔