Tag: zulfiqar ali bhutto

  • سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 95 واں یوم پیدائش

    کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اور پاکستان کے نویں وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 95 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، وہ بین الاقوامی قد آورسیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھر کر سامنے آئیں، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کے بعد 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور 1952 میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اور ایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو کے بارے میں 6 اہم حقائق

    ذوالفقارعلی بھٹو نے سیاست کا آغاز 1958میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمرفیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیرتجارت، وزیراقلیتی امور، وزیرصنعت وقدرتی وسائل اور وزیرخارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ء میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھر پور انداز سے پیش کیا۔

    ذوالفقار بھٹو فلسطین کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کے بھی روح رواں تھے، آصف زرداری

    آصف علی زرداری نے اسلام آباد سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے یوم پیدائش پر جاری پیغام میں کہا کہ ذوالفقار بھٹو فلسطین کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کے بھی روح رواں تھے۔

    انہوں نے کہا کہ قائدعوام 43 سال قبل عدالتی قتل کے بعدبھی عوام کے دل پرحکمرانی کر رہے ہیں، بھٹو کے قاتلوں  اور قتل کی سازش میں شریک کرداروں کی قبریں ویران ہیں لیکن بھٹوکی مزار پرکروڑوں انسان  دعاؤں کے تحفے ان کے نام کرتے ہیں۔

    سابق صدر کا کہنا تھا کہ ذوالفقار  بھٹو شہید نے عوام کو شعور، عزت سے سر اٹھا کر جینےکا سلیقہ سکھایا، انہوں نے مسلم دنیا کی بھی رہنمائی کی، وہ فلسطین کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہدکے بھی روح رواں تھے۔

    آصف زرداری کا کہنا تھا کہ قائدعوام انسانی آزادی کے بہت بڑے حامی، طرفدار اور وکیل تھے، وہ دنیا کے ایسے لیڈر تھے جو مذاکرات کے میز پر ناقابل شکست تھے۔

    انہوں نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کیلئے دنیا کی طاقتور قوتوں سے ٹکر لی، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ہر پاکستانی کو پاسپورٹ بنوانے کا حق دیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بھٹو شہید ایسے پاکستان کی تعمیر چاہتے تھے کہ کوئی دشمن پاکستان کو بری نظرسے نہ دیکھے۔

    آصف علی زرداری نے یہ بھی کہا کہ جب پاکستان ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا تو اقتدار کے لالچی ٹولے نے ملک پر قبضہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ کچھ خود غرض افراد نے ناجائز اقتدار کی خاطر پاکستان کو تختہ مشق بنایا، آج کے دن ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں پاکستان کو باوقار ملک بنائیں گے۔

    سابق صدر نے کہا کہ ہم بھٹو شہید کی امانت کی حفاظت کرتے رہیں گے، بینظیر بھٹو شہید قائد عوام کے پاکستان کی زنجیر تھیں۔

     

  • "تم کس حد تک امریکا کے کام آ سکتے ہو…”

    "تم کس حد تک امریکا کے کام آ سکتے ہو…”

    بھٹو عہد میں مجھے دو مرتبہ ملک سے باہر جانے کا اتفاق ہوا اور انہوں نے دونوں مرتبہ اس کی اجازت دے دی۔

    پہلی مرتبہ 1973ء میں امریکی حکومت کی طرف سے مجھے لیڈر شپ پروگرام کے تحت امریکا یاترا کی دعوت ملی۔ بھٹو نے امریکا جانے کی اجازت دینے سے پیشتر مجھے بلوایا اور اس زمانے میں پاکستانی سفیر سلطان محمد خان کے بارے میں مجھے اپنے تاثرات لکھنے کے لیے کہا۔

    بات یہ ہے کہ جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں انہی کی وساطت سے کسنجر نے چین کا دورہ کیا اور اس طرح امریکا کے چین کے ساتھ براہِ راست تعلقات استوار کرنے کا موقع پاکستان نے فراہم کیا۔ نتیجہ میں سوویت روس (جس کے تعلقات چین کے ساتھ بہت خراب تھے) پاکستان سے ناراض ہو گیا اور پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کر کے اس نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو سخت سبق سکھایا۔ بھٹو کے دل میں جس طرح امریکا کے خلاف گرہ تھی، اسی طرح وہ سلطان محمد خان کو شعیب (جنرل ایوب خان کے وزیر خزانہ) کی طرح امریکا کا ایجنٹ سمجھتے تھے۔ واشنگٹن پہنچنے پر پاکستانی سفارت خانے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں نے میرا استقبال کیا۔

    سفارت خانے کی دعوت میں مجھے امریکا کے فیڈرل سپریم کورٹ کے معروف جج جسٹس اوڈگلس سے ملاقات کا موقع ملا۔ جسٹس اوڈگلس کی عمر تقریباً پچاسی برس کی تھی اور انہوں نے اٹھائیس سالہ خاتون سے شادی کر رکھی تھی۔ وہ واشنگٹن میں عموماً پاکستانی سفارت خانے کے یومِ اقبال کی تقاریب کی صدارت کرتے تھے۔ کافی سترے بہترے تھے۔ مثال یہ ہے کہ انہوں نے مجھے فیڈرل سپریم کورٹ دیکھنے کی دعوت دی اور بعد ازاں اپنے رفقائے کار ججوں کے ساتھ لنچ میں شرکت کے لیے کہا، مگر چند ہی لمحوں کے بعد بھول گئے کہ میں کون ہوں، جس پر ان کی بیوی نے انہیں یاد دلایا کہ وہی ہیں جن کو دعوت دی ہے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اس قسم کا عمر رسیدہ جج مقدمات کے فیصلے کس طرح کر سکتا ہے۔ (امریکا میں سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں، البتہ وہ خود چاہے تو ریٹائر ہو سکتا ہے۔)

    میں نے سفیر صاحب کے ساتھ سپریم کورٹ کی عمارت کی سیر کی۔ عدالت کا وہ ہال بھی دیکھا جس میں مستقل طور پر امریکی صدر کی کرسی رکھی گئی ہے۔ رواج کے مطابق وہ نیچے کھڑا ہو کر ڈائس پر کھڑے نئے چیف جسٹس سے حلف لیتا ہے۔ بعدازاں سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ اس عمارت کی سب سے اوپر کی منزل پر واقع ریستوران میں لنچ کھایا۔ اس زمانے میں جسٹس وارن برگر چیف جسٹس تھے اور ان کی عمر بھی تقریباً اسی برس تھی۔ مجھ سے میری عمر پوچھی۔ میں نے بتایا کہ انچاس برس کا ہوں۔ فرمایا کہ آپ تو ابھی بچے ہو۔ جج صاحبان میری اس بات پر بڑے خوش ہوئے کہ پاکستان میں اعلیٰ عدالتیں صبح آٹھ بجے کام شروع کرتی ہیں اور ایک بجے دوپہر تک کام ختم کر دیتی ہیں۔ کہنے لگے کہ اے کاش کم از کم گرمیوں میں یہاں بھی ہم ایسے اوقات متعین کر سکیں تاکہ دوپہر کا کھانا اپنے اپنے گھر جا کر کھا سکیں۔ وہ سب اس بات کے بھی بڑے خواہشمند تھے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں انہیں تعطیلات گزارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

    اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جو اربابِ بست و کشاد جنوبی ایشیا کے معاملات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے سفیر صاحب کے ساتھ مجھے لنچ پر مدعو کیا۔ اس لنچ پر امریکی افسروں نے ہمارے سفیر سلطان محمد خان کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ کیپٹل ہل میں سلطان محمد خان کی مقبولیت دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ نہ صرف وہ امریکا کے آدمی ہیں بلکہ مجھے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ بھٹو حکومت نے اگر امریکا سے فائدہ اٹھانا ہے تو سفیر کے عہدے کے لیے صرف وہی موزوں ہوں گے۔

    لاہور پہنچ کر میں نے سفر کی رپورٹ بھٹو کو بھیج دی۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ بھٹو مری میں تھے۔ مجھے وہیں بلا بھیجا۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے، ”سلطان محمد خان دو وجوہ کی بنا پر تمہیں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں لے کر گیا تھا۔ ایک تو یہ کہ تم مجھے آکر بتاؤ کیپٹل ہل میں وہ کس قدر مقبول ہے اور دوسری یہ کہ تم کس حد تک امریکا کے کام آ سکتے ہو۔“ بھٹو نے شاید شعیب یا امریکا کو چڑانے کی خاطر میکسیکو میں پاکستانی سفارت خانہ قائم کرنے کے لیے انور آفریدی کو وہاں پہلے پاکستانی سفیر کے طور پر بھیجا تھا۔

    (خود نوشت سوانح اپنا گریباں چاک سے انتخاب)

  • سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی42 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی42 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    پیپلزپارٹی کے بانی وچیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیالیسویں برسی آج ملک بھر میں منائی جارہی ہے۔

    ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد اُنیس سو پچاس میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور اُنیس سو باون میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اور ایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔

    کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آور سیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھر کر سامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائز رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔

    قائد عوام نے دسمبر اُنیس سو سڑسٹھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اُنہی کا خاصا تھا۔

    اُنیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں نتیجہ ملک کے دوٹکڑوں کی صورت میں سامنے آیا۔سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ءمیں پاکستان کے صدر اور پھر 1973ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، اُنہوں نے اُنیس سو تہتتر میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اُنکے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اُنکی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔

    پاکستانی سیاست کے اُفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل اُنیس سو اُناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اُن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔

  • ذوالفقارعلی بھٹو کی 41 ویں برسی، گڑھی خدا بخش میں تقریب منسوخ

    ذوالفقارعلی بھٹو کی 41 ویں برسی، گڑھی خدا بخش میں تقریب منسوخ

    کراچی : پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کی اکتالیس ویں برسی آج انتہائی سادگی سے منائی جارہی ہے تاہم کورونا وائرس کے پیش نظر گڑھی خدا بخش میں برسی کی تقریب منسوخ کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کے بانی و چیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اکتالیسویں برسی آج ملک بھر میں انتہائی سادگی سے آج منائی جائے گی۔

     

    اس موقع پر پی پی کے زیراہتمام انفرادی طور پر دعائیہ تقریبات منعقد ہوں گی۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے پیش نظر گڑھی خدا بخش میں مرکزی تقریب کا انعقاد نہیں کیا جائے گا۔

    آج سے 40 سال قبل ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی ۔ یہ سزا کیوں دی گئی؟ یہ بات آج بھی بہت سارے لوگوں کے علم میں درست طور پر نہیں ہے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی اور یہ قتل کا مقدمہ اس وقت کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا تھا۔

  • ون یونٹ بنانے کی کوشش کی، تو لات مار کر حکومت گرا دوں گا: بلاول بھٹو زرداری

    ون یونٹ بنانے کی کوشش کی، تو لات مار کر حکومت گرا دوں گا: بلاول بھٹو زرداری

    لاڑکانہ: بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آج کا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ دردناک باب ہے، جس میں مزاحمت کی داستان درج ہے.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی 40 ویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا. ان کا کہنا تھا کہ آج عدالتی قتل کا 40 واں سال ہے، آج کے دن آئین پاکستان کے خالق کا خون ہوا.

    [bs-quote quote=” اس حکومت سے معیشت چل سکتی ہے نہ ہی ملک چل سکتا ہے” style=”style-8″ align=”left” author_name=”بلاول بھٹو زرداری”][/bs-quote]

    انھوں نے کہا کہ آج کے دن قوم تعمیر کرنے والے وزیراعظم کو سولی پر لٹکایا گیا، آج کا دن ایک سوال پوچھ رہا ہے کہ غریبوں کے محافظ کوقتل کیوں کیا گیا، ان کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے والے کون تھے، صدرپاکستان نے 8 سال پہلےاس ملک کی سب سے بڑی عدالت میں درخواست کی تھی، بھٹوز کیوں قتل ہوتے ہیں، اس کا جواب خون کا حساب کون دے گا، جوتاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، انھیں تاریخ پھر سبق سکھاتی ہے.

    1971 کی جنگ کے بعد شہید ذوالفقار بھٹو کو بچا کچا پاکستان ملا، 1972 میں شہید ذوالفقار بھٹو نے نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی، 1974 میں بھارت نے بم دھماکا کیا، 1978 میں پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام مکمل ہوچکا تھا، آج بھارت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے ہو، تو یہ ذوالفقاربھٹو کی وجہ سے ہے. کیا ذوالفقاربھٹو کو ملک کا دفاع مضبوط بنانے کی سزا دی گئی.

    ان کا کہنا تھا کہ جو قوتیں پاکستان کو نیوکلیئر اسٹیٹ بننے نہیں دینا چاہتی تھیں، ان کا آلہ کار کون بنا، نیوکلیئر پروگرام کے بانی کو کس کے اشارے پر ہٹایا گیا؟ ہمارا نظریہ نہیں بدلا، تمھارا بیانیہ بدلتا رہتا ہے، اس وقت بھی ہمارے نظریے کے خلاف غداری کا بیانیہ دیا، آج ہم بھٹو شہید کے نظریے پر اسی طرح کھڑے تھے، جس طرح بے نظیر بھٹو نے یہ علم اٹھایا تھا.

    انھوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان بھٹو شہید کا آئین ختم کرنا چاہتے ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں، 18 ویں ترمیم سے وفاق دیوالیہ ہوگیا،  18 ویں ترمیم ختم کرنے، ون یونٹ بنانے کی کوشش کی تو ایک لات مارکر حکومت گرادوں گا، اس حکومت سے معیشت چل سکتی ہے نہ ہی ملک چل سکتا ہے۔ کوئی حکومت کو سمجھائے کہ حکومت چندے سے نہیں چلتی، وکریاں تو دور، عوام  سے روزگارچھیناجارہا ہے۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آٹا، دال ، چاول ہر چیز عام آدمی کی خرید سے باہر ہے، صحت کا انصاف کہتا ہے کہ بیمار ہو، دوا نہیں خرید سکتے، تو مر جاؤ، عوام 20،20ہزار کے بجلی بل دیکھ کر بے حال ہے، ان کا وزیرخزانہ کہتا ہے ان کی معاشی پالیسی دیکھ کر چیخیں نکلیں گی، یہ معاشی دہشت گرد ہیں۔ 

    چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ انھیں حقیقت بتاتے ہیں، تو ڈرانے کے لئے نیب گردی شروع کردی جاتی ہے، یہ احتساب نہیں سیاسی انتقام ہے، یہ پولیٹیکل انجینئرنگ ہے، یہ جمہوریت نہیں سیاسی انتقام ہے،یہ پولیٹیکل انجینئرنگ ہے،6 ماہ کیس چلنے کےباوجود مجھے عدالت کے سامنے اپنا مؤقف دینے کا موقع نہیں ملا، معزز عدالت بھی جانتی ہے کہ یہ کیسز جھوٹے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس نے کہا میرا نام رپورٹ میں غلط شائع ہے۔

    مزید پڑھیں: اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کے لیے مجھ پر کیسز بنائے جارہے ہیں، آصف زرداری

    احتساب کے نام پر قوم کو بےقوف بنانے کی کوشش نہ کرو، احتساب کے نام پر پولیٹیکل انجیئرنگ مت کرو، میری باتیں اس حکومت کو برداشت نہیں ہوتیں، میں نے تین وزیروں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ بھٹو شہید کو انصاف ملنے سے ہی انصاف کی ابتدا ہوگی، برداشت کے باوجود آج بھی پرامید ہوں یہی عدالتیں ہمیں انصاف دیں گی، بھٹوشہید کی قیادت میں آنے والا انقلاب ہماری میراث ہے، بے نظیر بھٹو ایک نام نہیں، بلکہ غریبوں کاعزم ہے، سوچ کی آزادی جینا چاہتی ہے جمہوریت جینا چاہتی ہے، یقین دلاتاہوں اپنی آخری سانس تک آپ کےساتھ رہوں گا، ہم سب مل کر بھٹو شہید کا مشن پورا کریں گے۔

  • سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی40ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی40ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    کراچی : پیپلزپارٹی کے بانی و چیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسویں برسی ملک بھر میں آج منائی جائے گی، اس موقع پر پی پی کے زیر اہتمام دعائیہ تقریبات منعقد ہوں گی۔

    ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آور سیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھر کر سامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کے بعد اُنیس سو پچاس میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور اُنیس سو باون میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اور ایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔

    قائد عوام نے دسمبر اُنیس سو سڑسٹھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اُنہی کا خاصا تھا۔

    اُنیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں نتیجہ ملک کے دوٹکڑوں کی صورت میں سامنے آیا۔سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ءمیں پاکستان کے صدر اور پھر 1973ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، اُنہوں نے اُنیس سو تہتتر میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اُنکے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اُنکی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔

    پاکستانی سیاست کے اُفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل اُنیس سو اُناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اُن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔

  • ذوالفقارعلی بھٹو ہی نے غریبوں کو آواز دی: رضا ربانی

    ذوالفقارعلی بھٹو ہی نے غریبوں کو آواز دی: رضا ربانی

    اسلام آباد: پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو خطے میں بڑا انقلاب لانے والا لیڈر کہا جاسکتا ہے.

    یہ بات انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کی. ان کا کہنا تھا کہ آج محنت کش طبقے کو اپنے حقوق کے حوالے سے آگاہی ہے، جس کا سہرا بھٹو کے سر ہے.

    ان کا مزید کہنا تھا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کی آمریت کا مقابلہ کیا، ان کی شخصیت پر پر گفتگو کریں تو ایک صدی بھی کم ہے، مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو تھے، ذوالفقار علی بھٹو ہی نے غریب محنت کش عوام کو آواز دی.

    مزید پڑھیں: بھٹو کی برسی : صوبہ سندھ میں چار اپریل بروز جمعرات عام تعطیل کا اعلان

    خیال رہے کہ ایوب کابینہ اسے الگ ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، 1970 کے الیکشن میں انھوں نے مغربی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کی، وہ دسمبر 1971 تا 13 اگست 1973 صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ 14 اگست 1973ء کو نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔

    1977 کے عام انتخابات کے بعد ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 5 جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔

    18 مارچ 1978 کو ہائی کورٹ نے انھیں نواب محمد احمد خاں سزائے موت کا حکم سنایا، 4 اپریل کو انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی.

  • بھٹو کی برسی : صوبہ سندھ میں چار اپریل بروز جمعرات عام تعطیل کا اعلان

    بھٹو کی برسی : صوبہ سندھ میں چار اپریل بروز جمعرات عام تعطیل کا اعلان

    کراچی : حکومت سندھ نے 4اپریل کو صوبے بھر میں عام تعطیل کا اعلان کردیا، سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر صوبے کے تمام سرکاری و نیم سرکاری دفاتر بند رہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 40ویں برسی کے سلسلے میں حکومت سندھ نے4اپریل کو صوبے بھر میں عام تعطیل کا اعلان کردیا۔

    اس سلسلے میں چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے، حکم نامہ کے مطابق چار اپریل کو صوبہ سندھ کے تمام سرکاری و نیم سرکاری محکموں تعلیمی اداروں، خودمختار کارپوریشنز اورحکومت سندھ کے زیرکنٹرول لوکل کونسلز میں عام تعطیل ہوگی، تاہم اس کا اطلاق لازمی سروس کے اداروں پر نہیں ہوگا۔

  • شہید بھٹو اور بی بی کے مشن کی تکمیل کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے: بلاول بھٹو

    شہید بھٹو اور بی بی کے مشن کی تکمیل کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے: بلاول بھٹو

    کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو غیر معمولی زرخیز ذہن کے مالک تھے، ان کے اور بی بی کے مشن کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کی 91ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کیا، بلاول بھٹو نے بانی پیپلزپارٹی ذوالفقارعلی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کی۔

    چیئرمین پی پی نے کہا کہ شہید بھٹو کے نظریے پر سختی سے کاربند رہنا میرا نصب العین ہے، وہ غیر معمولی زرخیز ذہن کے مالک تھے۔

    سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 91 واں یوم پیدائش

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ شہیدبھٹو نے 90ہزار جنگی قیدیوں کو بھارت سے آزاد کرایا، بھٹو نے ہزاروں میلوں پر محیط پاکستانی زمین بھارتی قبضے سے واگزار کرائی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی بنیاد بھی ذولفقارعلی بھٹو نے رکھی، عدالتی قتل سے عوام عظیم لیڈر سے محروم ہوگئی۔

    خیال رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اورپاکستان کے نویں وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 91 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آورسیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھرکرسامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔

  • ذوالفقار علی بھٹو کی برسی، سندھ حکومت کا 4 اپریل کو عام تعطیل کا اعلان

    ذوالفقار علی بھٹو کی برسی، سندھ حکومت کا 4 اپریل کو عام تعطیل کا اعلان

    کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر سندھ حکومت نے 4 اپریل کو عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی 4 اپریل کو منائی جائے گی، سندھ حکومت کی جانب سے برسی کے موقع پر سندھ بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

    شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 39 ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا جائے گا جس میں ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں عوام اور کارکنان شرکت کریں گے۔

    مزید پڑھیں: ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کیوں‌ دی گئی؟ مقدمہ تھا کیا؟

    واضح رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو 1963 سے 1966 تک ملک کے پہلے فوجی صدر جنرل ایوب کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے، جبکہ 1971 سے 1973 تک ملک کے پہلے سویلین صدر اور 1973 سے 5 جولائی 1977 تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔

    پانچ جولائی کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگایا اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا، ان پر ایک شخص کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، جس میں 18 مارچ 1978 کو ان کو ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی۔

    چھ فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے بھی سزا کو برقرار رکھا اور 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔