Tag: zulfiqar ali bhutto

  • سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 90 واں یوم پیدائش

    سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 90 واں یوم پیدائش

    کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اورپاکستان کے نویں وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 90 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آورسیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھرکرسامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کے بعد 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور 1952 میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا،تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اورایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے سیاست کا آغاز 1958میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمرفیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِحکومت میں وزیرتجارت، وزیراقلیتی امور، وزیرصنعت وقدرتی وسائل اوروزیرخارجہ کے قلمدان پرفائض رہے، ستمبر1965ء میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپورانداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلانِ تاشقند پردستخط کیے تو ذوالفقارعلی بھٹو انتہائی دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی تھی۔

    قائد عوام نے دسمبر 1967 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اُنہی کا خاصا تھا۔

    اُنیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں نتیجہ ملک کے دوٹکڑوں کی صورت میں سامنے آیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ءمیں پاکستان کے صدر اورپھر 1973ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔


    کیا آپ جانتے ہیں کہ بھٹو کو قائداعظم نے کیامشورہ دیا تھا؟


    ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دوراقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیے، اُنہوں نے1973 میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اُن کے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اُن کی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔

    پاکستانی سیاست کے اُفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل اُنیس سو اُناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اُن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔

  • بینظیربھٹو: درس گاہ سے مقتل تک

    بینظیربھٹو: درس گاہ سے مقتل تک

    آج پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ محترمہ بینظیر بھٹو کی چونسٹھویں سالگرہ ہے، آپ کو27 دسمبر2007 کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا تھا۔

    مکمل ویڈیو ڈاکیومنٹری دیکھنے کے لیےاسٹوری کے آخر میں اسکرول کریں


    بینظیربھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی بیٹی اورانکی سیاسی جانشین تھیں۔

     – تعلیم –

    آپ 21 جون 1953 کو کراچی میں پیداہوئیں۔ ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول کراچی، راولپنڈی کانونٹ اور کانونٹ آف جیسز اینڈ میری (مری) میں حاصل کی۔

    سن 1973 میں انہوں نے برطانیہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے گرایجویشن کیا اوراس کے بعد آکسفورڈ یونیویرسٹی سے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔

    benazir-post-3

     – سیاست –

    محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ کی پہلی اورواحد خاتون وزیراعظم ہیں اورآپ دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پرفائزرہی ہیں۔

    سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد آپ نے ضیا الحق کی آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی اور ملک میں جمہوریت کو بحال کرنے کے لئے بے پناہ کاوشیں کی تھیں۔

    benazir-post-1

    آپ پہلی بار دو دوسمبر 1988 کو وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئیں تاہم محض بیس ماہ کی قلیل مدت کے بعد چھ اگست 1990 کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات کے تحت آپ کی حکومت ختم کردی تھی۔

    دوسری مرتبہ 19 اکتوبر 1993 میں آپ وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن اس باربھی آپ کی حکومت کرپشن کے الزامات کے سبب 5 نومبر 1996 کو صدرفاروق لغاری نے آپ کی حکومت کو ختم کرکے اسمبلیاں تحلیل کردیں تھیں۔

    آپ کے دورِ حکومت میں آپ کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو انکی رہائش گاہ کے سامنے قتل کردیا گیا تھا اوران کے قاتل آج بھی دنیا کے سامنے نہیں لائے جاسکے۔

    سابق صدرجنرل (ر) پرویزمشرف کی حکومت کے دوران انہوں نے دبئی میں جلا وطنی اختیارکئے رکھی۔

     – میثاقِ جمہوریت –

    14مئی 2006 کو لندن میں بینظیربھٹو اور نواز شریف میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے جس کے تحت پاکستان میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت ختم کرنے کے لئے جدود جہد شروع کی گئی۔

    18اکتوبر2007 کو بینظیربھٹو ساڑھے آٹھ سال کی جلا وطنی ختم کرکے وطن واپس آئیں اور کراچی ایئرپورٹ پر ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا، ان کے استقبالی قافلے پردوخوفناک خودکش حملے ہوئے جن میں 150 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تاہم بینظیربھٹواس حملے میں محفوظ رہیں۔

    benazir-post-4

     – قتل –

    27دسمبر2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری عوامی جلسے سے خطاب کیا اس موقع پر عوام کی کثیرتعداد موجود تھی۔

    خطاب کے بعد جلسہ گاہ سے باہر نکلتے ہوئے اپنے کارکنان سے اظہارِ یکجہتی کے لئے وہ گاڑی کی سن روف سے باہرنکلیں اور اس موقع پرایک نامعلوم شخص نے انہیں گولی کا نشانہ بنایا اوراس کے ساتھ ہی ان کی گاڑی سے محض چند قدم کے فاصلے پر ایک خود کش حملہ ہوا۔

    بینظیربھٹوکو راولپنڈی جنرل اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    بینظیربھٹوکولاڑکانہ کے سے ملحقہ علاقے نوڈیرومیں ان کے والد ذوالفقارعلی بھٹو کے مزار میں دفن کیا گیا۔

    benazir-post-2

    ہرسال ان کی سالگرہ اور برسی  کے موقع پرملک کے کونے کونے سے کارکنان جمع ہوتے ہیں اورمحترمہ بینظیر بھٹو کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

    بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت ایک وصیت کے تحت ان کے جواں سال بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے سپرد کردی گئی اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو پیپلزپارٹی کا شریک چیئرمین مقرر کردیا گیا جو کہ جنرل پرویز مشرف کے استعفے کے بعد صدرپاکستان کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔



  • ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کیوں‌ دی گئی؟ مقدمہ تھا کیا؟

    ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کیوں‌ دی گئی؟ مقدمہ تھا کیا؟

    ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کیوں دی گئی؟ یہ بات آج بھی بہت سارے لوگوں کے علم میں درست طور پر نہیں ہے۔

    گیارہ نومبر 1974ء کو رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری لاہور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے کہ اچانک گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس سے ان کے والد نواب محمد احمد خان جاں بحق ہوگئے۔

    احمد رضا قصوری نے موقف اختیار کیا کہ ان پر فائرنگ بھٹو کے کہنے پر کی گئی، بھٹو نے ایک بار قومی اسمبلی میں مجھے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب خاموش ہوجائو تمہیں بہت برداشت کرلیا اب تمہیں مزید برداشت نہیں کریں گے۔


    یہ بھی پڑھیں: بھٹو کا جیل سے بے نظیر کو آخری خط، پڑھنے والے رو گئے


    قصوری نے ایف آئی آر درج کرائی، وہ مارشل لا کے نفاذ تک چپ رہے لیکن مارشل لا لگتے ہی انہوں نے یہ معاملہ دوبارہ اٹھادیا۔

    بالآخر 24 اکتوبر 1977ء کو لاہور ہائی کورٹ میں یہ معاملہ جاپہنچا جہاں مولوی مشتاق حسین چیف جسٹس ہائی کورٹ تھے۔

    18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی جس کے بعد بھٹو کے وکلا نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی۔

    سپریم کورٹ کے سات ججز تھے جس میں سے چار نے سزا برقرار رکھی اور تین نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

    ذوالفقار علی بھٹو قانون کے مطابق اس وقت کے صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اپیل دائر نہیں کی اور انکار کردیا جس کے بعد چار اپریل کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

  • بھٹو کا جیل سے بے نظیر کو آخری خط، پڑھنے والے رو گئے

    بھٹو کا جیل سے بے نظیر کو آخری خط، پڑھنے والے رو گئے

    ذوالفقار علی بھٹو نے 21 جون 1978 کو اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو سالگرہ کے موقع پر ’’میری سب سے زیادہ پیاری بیٹی ‘‘کے عنوان سے خط لکھا تھا۔

    post-7

    یہ خط انتہائی جذباتی تھی جس میں بھٹو نے بحیثیت باپ ایسا جذباتی خط لکھا تھا جسے پڑھ کر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔

    post-6

    ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں قید میں ہوں اور اپنی بیٹی کو کیا تحفہ دے سکتا ہوں۔

    post-5

    ایسے موقع پر جب بیٹی اور اس کی ماں بھی نظر بند ہو، ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے تک محبت کا پیغام کیسے پہنچے

    post-4

    میں تمہیں تحفہ تک نہیں دے سکتا لیکن عوام کا ہاتھ تحفے میں دیتا ہوں۔

    post-3

    بھٹو نے بیٹی کو مخاطب کیا اور کہا کہ دادا اور دادی نے مجھے فخر اور غربت کی سیاست سکھائی جو میں اب تک تھامے ہوئے ہوں۔

    post-2

    میں تمہیں پیغام دیتا ہوں کہ صرف عوام پر یقین رکھو اور ان کی فلاح کے لیے کام کرو اور جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے

    post-1

  • بھٹو کو مسلم ممالک کو اکٹھا کرنے کی سزا دی گئی، رضا ربانی

    بھٹو کو مسلم ممالک کو اکٹھا کرنے کی سزا دی گئی، رضا ربانی

    گڑھی خدا بخش : چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کو مسلم ممالک کو اکٹھا کرنےکی سزا دی گئی، بھٹو ریفرنس پر گرد جم رہی ہے سپریم کورٹ ازخود اوپن کرے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس سے قبل رضا ربانی نے ذوالفقار علی بھٹو اورشہید بینظیر بھٹو کی مزارات پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔

    چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھٹو کو راہ راست سے ہٹانے کا ذمہ دارعالمی قوتوں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کو مسلم ممالک کو یکجا کرنے کی پاداش میں راستے سے ہٹایا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ نیب کا نظام مکمل طور پر ناکارہ ہوچکا ہے، اس کے تحت کرپشن پر قابو نہیں پایا جا سکتا، نگراں حکومتوں کا کام تین مہینے کے لئے صرف روزانہ کا بزنس چلانا ہے، عالمی اداروں سے معاہدے کرنا ان کا کام نہیں۔

    نگراں حکومتوں کے خد و خال واضح کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے اقدامات کیے جائیں، انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لئے نیشنل سیکورٹی اور خارجہ پالیسی سمیت تمام اہم ملکی فیصلے اے پی سی کے بجائے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں۔

  • ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی، چاراپریل کو سندھ میں عام تعطیل کا اعلان

    ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی، چاراپریل کو سندھ میں عام تعطیل کا اعلان

    کراچی : پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی کی برسی کے موقع پر حکومت سندھ نے چار اپریل کو صوبے بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے، اس حوالے سے حکومت سندھ نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

    قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 37ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں عظیم الشان جلسہ عام منعقد ہوگا، جس میں ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں عوام اور کارکنان شرکت کریں گے اور جلسے سے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر مرکزی رہنما اور پارٹی کے صوبائی صدور خطاب کریں گے۔

    یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو 1963 سے 1966 تک ملک کے پہلے فوجی صدر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے جبکہ 1971 سے 1973 تک ملک کے پہلے سویلین صدر اور 1973 سے 5 جولائی 1977تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔

    5 جولائی کو ملک میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا، اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا، ان پر ایک شخص کے قتل کا مقدمہ چلا، جس میں 18 مارچ 1978 کو ان کو ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی۔

    6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے بھی سزا کو برقرا رکھا اور 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

     

  • فوجی آمرضیا الحق کے طیارہ حادثے کو 27 سال مکمل

    فوجی آمرضیا الحق کے طیارہ حادثے کو 27 سال مکمل

    آج پاکستان کے سابق فوجی آمراورچھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق کی ستائیس ویں برسی ہے وہ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ تھے جنہوں نے 1977ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کیلئے ایک معمہ ہے۔ وہ تادمِ مرگ، سپاہ سالار اورصدارت، دونوں عہدوں پر فائزرہے ہیں۔

    ZIA UL HAQ

    سابق صدرمملکت اورسابق چیف آف آرمی سٹاف، اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سن 1945ء میں فوج میں کیمشن ملادوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں اور آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹرمقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولری رجمنٹ کی قیادت کی۔ انہوں نے اردن کی شاہی افواج میں بھی خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں انہیں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اورپھربریگیڈیر بنادیا گیا۔ 1973 میں میجرجنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرترقی دے کرکورکمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پرترقی پاکرپاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اورذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابترہوگئی۔ پیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہواتاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اورمارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے منتخب حکومت پر’’آپریشن فیئر پلے‘‘کے نام سے شب خون مارکراقتدارپرقبضہ کرلیا۔

    ZIA UL HAQ

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف اور صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ 90 دن بھی طوالت پا کر11سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شدید مذاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو گرفتارکرلیاگیا اوران پرنواب احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائیکورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔

    ZIA UL HAQ

    اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اورباربارالیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں انہوں نے اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔

    فروری 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پرآٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پرنااہلی اوربدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پرپانی پھرگیا ہے

    ZIA UL HAQ

    جنرل ضیا کے دورمیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیارکرکے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج ان کی موت کے چھبیس سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اورمنشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑرہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اورامریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکرجاں بحق ہوگئے۔

  • آج تاریخ شہیدوں کےلہوکاحساب مانگ رہی ہے، آصف زرداری

    آج تاریخ شہیدوں کےلہوکاحساب مانگ رہی ہے، آصف زرداری

    نوڈیرو: سابق صدرآصف زرداری نے کہا ہے کہ سعودی عرب اورخلیج کےملکوں میں لاکھوں پاکستانی کام کرتےہیں،وہاں سیاسی تبدیلی پاکستان کےمفادمیں نہیں۔

    ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ملک کوشہیدوں کےلہوکی ضرورت ہے،آج تاریخ شہیدوں کےلہوکاحساب مانگ رہی ہے،ہمارے بچوں کوماضی کی آگ سے آج بھی خطرہ ہے، بھٹو نے لکھا تھا کہ میرے جانے کے بعد ہمالیہ روئیں گے۔

    یمن کے معاملے پر سابق صدر کا کہنا تھا کہ  پارلیمنٹ میں بات کی جائے ، اسلامی دنیا میں ہر ملک آخر کیوں پریشان ہے،انہوں نے کہا کہ بیس لاکھ پاکستانی سعودی عرب اوردس لاکھ گلف میں کام کرتےہیں،ان ملکوں کی سلامتی پاکستان کی اقتصادی ضرورت ہے، کسی کوسعودی عرب کی سلامتی خطرےمیں ڈالنےکی اجازت نہیں دے سکتے،حرمین شریفین کی ہم سب عزت اورخدمت کرتے ہیں، ہرمسلمان حرم شریف کے لیے اپنی جان دے سکتا ہے۔

    آصف زرداری نےکہا کہ مسلمانوں کولڑانےوالوں کےاپنےعزائم ہیں،انہیں اپنےہتھیاربھی بیچنا ہیں،انہوں نے حکومت کومشورہ دیا کہ مدد اتنی ہی کریں جتنا بوجھ اٹھاسکیں۔

    انہوں نے وزیراعظم نوازشریف سےشکوہ کیا کہ وہ چھوٹے صوبوں سےزیادتی بھی کرتے ہیں اورمشورہ بھی نہیں کرتے، سندھ میں اٹھارہ گھنٹےلوڈشیڈنگ کرائی جارہی ہے۔

    آصف زردری نے عمران خان کومشورہ دیا کہ وہ پارلیمنٹ میں آئیں،الیکشن کمیشن کومالی لحاظ سےخودمختاربنانےکے لیے اپوزیشن کاہاتھ بٹائیں۔

    اس سے قبل پیپلزپارٹی کےرہنمااعتزازاحسن نے کہا کہ وزیراعظم صرف ترکی ہوکر آگئے،امت مسلمہ کو بھٹو جیسے رہنما کی ضرورت ہے جوتمام مسلم ملکوں کومتحد کرکے یمن کامسئلہ حل کرتا۔

    تقریب میں وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ نےعلامہ اقبال کامسلمانوں کےلیےکہا گیا شعرجیالوں کےلیےپڑھ دیا، انہوں نے کہا آصف زرداری جب مشورہ دیتےہیں توسب انہیں سلام کرتےہیں۔

  • شہید ذواالفقارعلی بھٹو کے مشن کو جاری رکھیں گے، بلاول بھٹو زرداری

    شہید ذواالفقارعلی بھٹو کے مشن کو جاری رکھیں گے، بلاول بھٹو زرداری

    کراچی : پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری  کا کہنا ہے کہ میں اورآصف زرداری عوام کےحقوق کی جدوجہدجاری رکھیں گے۔

    بلاول بھٹو زرداری نے شہیدذوالفقار علی بھٹو کی چھتیسویں برسی پر اپنے پیغام میں کہا کہ شہید ذواالفقار بھٹو نےعوام کو طاقت کا سرچشمہ بنایا۔

    پاکستان کوایٹمی قوت بنا یاجو ملک کے مخالفین کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ شہید ذواالفقار بھٹو عوام کی خاطر سر اٹھا کر تختہ دار پر گئے۔

    شہید بھٹو عوام میں زندہ رہے لیکن مخالف فضاؤں میں خاک ہوگئے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میں اور آصف زرداری شہداء کی شمعیں لیکرعوام کے حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

  • ذوالفقار علی بھٹو کی 36ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ذوالفقار علی بھٹو کی 36ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

     ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آور سیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھر کر سامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کے بعد اُنیس سو پچاس میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور اُنیس سو باون میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اور ایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔

    قائد عوام نے دسمبر اُنیس سو سڑسٹھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اُنہی کا خاصا تھا۔

    اُنیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں نتیجہ ملک کے دوٹکڑوں کی صورت میں سامنے آیا۔سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ءمیں پاکستان کے صدر اور پھر 1973ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، اُنہوں نے اُنیس سو تہتتر میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اُنکے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اُنکی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔

     پاکستانی سیاست کے اُفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل اُنیس سو اُناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اُن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔