Tag: zulfiqar ali bhutto

  • ذوالفقارعلی بھٹو کا 87واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے

    ذوالفقارعلی بھٹو کا 87واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے

    پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی آج ستاسی ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔

    سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے جنوری انیس سو اٹھائیس کو سندھ کے شہر لاڑکانہ کے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں دولت کی ریل پیل تھی، ذوالفقارعلی بھٹو نے عوامی مسائل کے حل کے لیے خارزار سیاست کا انتخاب کیا۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے انیس سو تہتر میں ملک کو نہ صرف پہلا متفقہ آئین دیا بلکہ ان کے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو بھی آج تک ان کی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سرجاتا ہے۔

    اتنی عوامی مقبولیت کے باوجود ذوالفقار بھٹو نے جلد بازی نہ کی اور تقریبا ڈیڑھ سال بعد عوام کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی  کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا تاریخی نعرہ دیا۔

    پاکستان کی سياسی تاریخ میں جو مقام ذوالفقارعلی بھٹو اور پیپلزپارٹی کو ملا وہ کسی اور رہنما يا جماعت کو حاصل نہيں ہوسکا، اپنی مدت پوری کرنے کے بعد مارچ 1977 میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت لیتے ہوئے 155 نشستیں حاصل کیں جبکہ نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کے حصے میں صرف 36 نشستیں آئیں لیکن پی این اے نے انتخابی نتائج قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

    اس دوران ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کے رہ نما مفتی محمود کے درمیان دو اور تین جولائی کو مذاکرات ہوئے، جنہیں نتیجہ خیز بھی قرار دیا جاتا رہا لیکن پھر چار جولائی کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے مارشل نافذ کر کے 90 دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔

    ذوالفقار علی بھٹو کو دو بار نظر بند کر کے رہا کر دیا گیا تاہم انہیں تیسری بار حراست میں لے کر قتل میں اعانت کا مقدمہ چلایا گیا اور پھر اس مقدمے میں 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔

    پاکستان میں چار جرنیلوں نے بزور قوت حکومت کی مگر اپنے پیش رو حکمران کا تختہ الٹ کر قتل کے سیاسی مقدمے میں پھانسی دینے کے واقعہ 34 سال گزرنے کے بعد آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔

  • وہ 5 عظیم لیڈر جن کی طاقت ان کے وارثوں میں منتقل ہوئی

    وہ 5 عظیم لیڈر جن کی طاقت ان کے وارثوں میں منتقل ہوئی

    دنیائے سیاست میں بہت سے واقع رونماء ہوئے ، جیسے چند ایسے سیاسی لیڈر بھی گزرے  جو خود تو عظیم مرتبے پر فائز تھے لیکن ان کے ان کی اولادیں بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہی کی طرح عظیم عہدے پر فائز ہوئے ، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان میں یہ صلاحیتیں وارثتی طور پر منتقل ہوئی ۔

    بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہرو  17 سال تک وزیر اعظم کے فرائض نبہاتے رہے، (1947-1964) تک وزیر اعظم کی فرائض نبہانے والے جواہرلال نہرو مشہوری کی وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت کی آزادی کے وقت وہ تمام تحریک میں پیش پیش تھے۔ان کی بے پناہ مقبولیت ہی وہ وجہ تھی جس کے باعث وہ آخری سانس تک بھارت پر حکمرانی کرتے رہے۔

    بعد ازاں 1966  میں جواہرلال نہرو کی صحابزادی اندرا گاندھی کو کانگریس کی قیادت ملی ، جس کے بعد اُسی سال وہ بھارت کی تیسرے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئی ، یہ عہدہ ان کے پاس 1977 تک رہا ، اندرا گاندھی دوسری مرتبہ 1980 میں وزیراعظم بنی اور مزید چال سال 1984 تک عہدے پر فائز رہیں۔1984 میں اندرا کو قتل کردیا گیا۔

    بعد ازاں اندرا گاندھی کی کرسی ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو مل گئی جو کہ 1984  سے 1989 تک وزیراعظم رہے۔

    جارج ہاربٹ واکر بش امریکہ کے 41ویں صدر تھے۔وہ  1989 سے 1993 سپر پاور  امریکہ کے جمہوری صدر رہے ،بعد ازاں ان کی تمام صلاحیتیں اُن کے بیٹے جارج ڈیبلو بش میں منتقل ہوئیں۔جارج بش 2001 میں امریکہ کے 43 ویں صدر منتخب ہوئے  جارج بش 2009 تک امریکہ کے صدر رہے ان کی جگہ موجودہ وزیراعظم بارک اوباما نے  لی ہے۔

    شیخ مجیب الرحمان آزاد بنگلادیش کے بانی ، پہلے صدر اور دوسرے وزیراعظم تھے۔وہ بنگلادیش کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی تحریک عوامی لیگ کے قائد بھی تھے۔ 1975 میں مجیب الرحمان کو ان کے خاندان کے ہمراہ قتل کردیا گیا ، مجیب الرحمان کے لواحیقین میں صرف دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور ریحانہ بچیں جو جرمنی میں قیام پزیر تھیں۔

    عمر میں بڑی ہونے کے وجہ سے شیخ حسینہ میں اپنے والد جیسی تمام صلاحیتیں قدرتی طور پر موجود تھیں، 1981 میں شیخ حسینہ کو عوامی لیگ کی قیادت سونپ دی گئی۔بنگلادیش کی موجودہ وزیراعظم بھی شیخ حسینہ ہی ہیں ۔

    شامی سیاستدان حفیظ الاسد 1971 سے 2000شام کے صدر رہےانہوں نے 30 سال تک شام میں حکومت کی ، انکے انتقال کے ان کی وراثت کے حقدار ان کے بیٹے بشارالاسد  والد کی کرسی پر بیٹھنے کے قابل ہوگئے تھے۔سن 2000 میں بشارالاسد اپنے والد کے عہدے پر فائز ہوئے اور وہ موجودہ  شام میں جاری خانہ جنگی کا مقابلہ کررہے ہیں ۔

    ذوالفقار علی بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ، پاکستان کے چوتھے صدر اور نویں  وزیراعظم تھے۔اس عظیم لیڈر نے 7 سال تک پاکستان میں حکومت کی ۔1977 میں فوجی انقلاب کے نتیجے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا ۔ذوالفقارعلی بھٹو کے انقتال کے بعد ان کی وارث بینظر بھٹو سیاست میں آئیں ، بینظر بھٹو دو مرتبہ پاکستانی کی وزیراعظم بنیں، 2007 میں ان کو قتل کردیا گیا ۔

  • اگلا وزیرِاعظم ’بھٹو‘ہوگا، بلاول

    اگلا وزیرِاعظم ’بھٹو‘ہوگا، بلاول

    کراچی:پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلا وزیرِاعظم بھٹو خاندان سے ہوگا۔

    کراچی میں پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں آج صرف عید کا روایتی پیغام دینے نہیں آیا پیپلزپارٹی خاندانی سیاست کرتی ہے اورکرتی رہے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف جمہوریت کے شیر بنتے ہیں لیکن انہوں نے آج تک جمہوریت کے لئے بلی کا بچہ تک قربان نہیں کیا۔

    انہوں نے جذباتی لہجے میں کہا کہ میں بینیظیر شہید کا بیٹا ہوں مجھے کوئی بھی انتقام لینے سے نہیں روک سکتا لیکن بی بی نے سکھایا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔

    بلاول کا کہنا تھا کہ چند عناصر مجھے کراچی میں جلسہ کرنے سے روکنا چاہتے ہیں وہ مجھے مشورہ دے رہے ہیں کہ حالات خراب ہیں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا جائے،انہوں نے سوال کیا کہ حالات ہمیشہ پیپلز پارٹی کے لئے ہی کیوں خراب ہوتے ہیں؟۔

    انہوں نے اعلان کیا کہ وہ 18 اکتوبر 2014 کوکراچی میں ہرحال میں جلسہ کریں گے۔ انہوں نے گورنر سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی ریلی کی بھرپورحفاظت کے لئے رینجرزکو پیشگی ہدایت دیں، اگر پی پی پی کا ایک بھی کارکن آپ کے نامعلوم افراد کا نشانہ بنا تومیں آپ کو چین سے نہیں بیٹھنے دوں گا۔

    انہوں نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگرانہیں سیاست سیکھنی ہے تو ذوالفقارعلی بھٹو سے سیکھیں جنہوں نے ہمیں سکھایا کہ پیپلزپارٹی ایک خاندان ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگرہمیں کرکٹ سیکھنی ہوگی تو ہم ضرورعمران خان سےسیکھیں گے۔

    انہوں نے اپنے کارکنوں کو جوش دلانے کے لئے نعرہ لگایا کہ ’میں بھی بھٹو ہوں، آپ بھی بھٹوہیں ہم سب بھٹو ہیں‘۔

    پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ صرف پیپلزپارٹی ہی وہ واحد پارٹی ہے جو اپنے کسی بھی کارکن کووزیرِاعظم بناسکتی ہے۔

  • آج سابق فوجی آمر ضیا الحق کی برسی ہے

    آج سابق فوجی آمر ضیا الحق کی برسی ہے

    آج پاکستان کے سابق فوجی آمر اور چھٹے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی برسی ہے وہ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ تھے جنہوں نے 1977ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا اور بعد ازاں ملک کی صدارت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کیلیے ایک معمہ ہے۔ وہ تا دم مرگ، سپاہ سالار اور صدارت، دونوں عہدوں پر فائز رہے۔

    سابق صدر مملکت و سابق چیف آف آرمی سٹاف۔ اگست 1924ء میں جالندھر میں ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سن 1945ء میں فوج میں کمشن ملادوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں۔ آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولر رجمنٹ کی قیادت کی۔ اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھر بریگیڈیر بنا دیا گیا۔ 1973 میں میجر جنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کور کمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پر ترقی پا کر پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابتر ہو گئی۔ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر 4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اور پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا تاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اور مارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے منتخب حکومت پر’’آپریشن فیئر پلے‘‘ کے نام سے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کروانا ہے سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ نوے دن بھی طوالت پا کرگیارہ سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں ذوالفقار علی بھٹو نے شدید مذاحمت کی جس کے نتیجہ میں ان کو گرفتار کرلیاگیا اوران پرایک قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائیکورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اور سپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔

    اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اور بار بار الیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا

    فروری 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا ۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر 30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پر آٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیر اعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پر نااہلی اور بدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پر پانی پھر گیا ہے۔

    جنرل ضیا کے دور میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیار کر کے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج انکی موت کے چھبیس سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور منشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اورامریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے۔