توشہ خانہ ریفرنس: 2 گواہان کے بیانات قلمبند، ایک گواہ پر جرح مکمل

توشہ خانہ ریفرنس: 2 گواہان کے بیانات قلمبند، ایک گواہ پر جرح مکمل

راولپنڈی: بانی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں دو گواہان نے اپنے بیانات قلمبند کروا دیے جبکہ ایک گواہ پر جرح مکمل کر لی گئی۔

اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس پر سماعت کی۔ اس دوران جیولری کی مالیت کا تخمینہ لگانے والی کمپنی کے ملازم نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا جس پر وکیل صفائی شہباز کھوسہ نے جرح کی۔

گواہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ قونصلر جنرل پاکستان کی جانب سے کمپنی کو تخمینہ کیلیے اپروچ کیا گیا جبکہ کمپنی نے گراف جیولری سیٹ اور بریسلٹ واچ کے تخمینے کی ذمہ داری سونپی، مجھے ان چیزوں کی مارکیٹ ویلیو سرچ کرنے کا کہا گیا، میں نے مختلف آؤٹ لیٹس سے ان پٹ لینے کے بعد تحائف کا تخمینہ لگایا، گراف جیولری سیٹ کا تخمینہ 19.492 ملین امریکی ڈالر لگا جس کی رپورٹ کونسل جنرل پاکستان کے دفتر میں جمع کروائی۔

’محسن حبیب نے گراف جیولری سیٹ کے تخمینہ کیلیے تصاویر دیں۔ میں کمپنی میں بطور پارٹ ٹائم سیلز مین کا کام کرتا ہوں۔ گراف جیولری سیٹ اور بریسلٹ واچ تخمینہ فزیکلی مجھے نہیں دی گئیں۔ جیولری کے تخمینہ کیلیے مجھے کوئی ادائیگی نہیں کی گئی۔ مجھے کمپنی کی جانب سے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ کمپنی نے جیولری سیٹ کے تخمینہ کیلیے کتنے پیسے لیے مجھے معلوم نہیں۔ قونصلیٹ نے کمپنی کو کیا ادائیگی کی مجھے معلوم نہیں۔‘

گواہ نے بتایا کہ معلوم نہیں کمپنی کو ادائیگی ڈالر میں ہوئی، درہم میں یا پاکستانی کرنسی میں، قونصلیٹ کی جانب سے تحائف کے تخمینے کیلیے تحریری درخواست کا علم نہیں، درست ہے مجھے تحریری طور پر تحائف کی مالیت کے تخمینے کا ٹاسک نہیں دیا گیا، میرے پاس کمپنی کا کوئی اتھارٹی لیٹر بھی نہیں، میں نے ہی تحائف کا تخمینہ رپورٹ تیار کر کے قونصل دفتر میں جمع کروائی، جیولری آئٹم کی تفصیلی فہرست تفتیشی افسر کو فراہم نہیں کی۔

وکیل نے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے آپ کو نیب کی بنی بنائی رپورٹ ملی جو آپ نے فراہم کی؟ اس پر گواہ نے جواب دیا کہ یہ درست نہیں ہے، تخمینہ کے حوالے سے مارکیٹ ریسرچ دستاویزات تفتیشی کے سامنے پیش نہیں کیں۔ سوال کیا گیا کہ کیا مارکیٹ ریسرچ تفتیشی کے سامنے اس لیے نہیں رکھی کہ یہ ریسرچ نہیں گئی؟ جواب میں گواہ نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے، درست ہے کہ ڈائمنڈ ایکسپرٹ کی ان پٹ دستاویزات تفتیشی افسر کو فراہم نہیں کی۔

اس پر وکیل نے سوال کیا کہ ڈائمنڈ کو ماپنے کا یونٹ قیراط ہوتا ہے لیکن رپورٹ میں گرام لکھا گیا؟ گواہ نے جواب دیا کہ یہ کلیئریکل غلطی ہے۔ وکیل نے سوال کیا کہ ڈائمنڈ کا نہ رنگ اور نہ کلیئریٹی لکھی گئی تو کیسے مالیت کا تخمینہ لگایا گیا؟ کیا آپ تصویر دیکھ کر ہیرے کی قیمت کا تخمینہ لگا سکتے ہیں؟ اس پر گواہ نے کہا کہ تصویر سے نہیں ہیرے کی تفصیل سے اس کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جس کمپنی کے ساتھ کام کرتا ہوں اس کے مالک کا نام نہیں جانتا، ایچ آر منیجر کا نام عبداللہ ہے یہ جانتا ہوں۔

وکیل نے کہا کہ دبئی میں کئی ملٹی نیشل کمپنیاں موجود ہیں مگر تحائف کی قیمت بھارتی کمپنی سے لگوائی، تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے انکار کے بعد بھارتی کمپنی سے تخمینہ لگایا گیا۔

نیب کی بنی گالہ چیف سکیورٹی انعام کا بیان قلمبند کروانے کی کوشش پر بانی پی ٹی آئی کا اعتراض اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ انعام شاہ کا بیان قلمبند کرنے سے پہلے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا جائے۔

بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ حلف دوں گا کہ جھوٹ بولنے پر مجھ اور میرے بچوں پر اللہ کا عذاب ہو، یہ بھی قرآن پر ہاتھ رکھے میں بھی رکھوں گا۔

رینبو انٹرپرائزز نامی کمپنی کے سیلزمین گواہ عمران بشیر کے بیان پر جرح مکمل کی گئی۔ عدالت نے گواہ نیب افسر مستنصر کا بیان بھی قلمبند کیا۔ احتساب عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل 23 جنوری تک ملتوی کر دی۔