طفیل احمد جمالی:‌ ادب اور صحافت کی دنیا کا بھولا بسرا نام

اردو میں فکاہیہ کالم نگاری ایک اہم ادبی و صحافتی صنف کے طور پر رائج ہے اور کئی بڑے ادیبوں اور نثر نگاروں نے اخبار اور جرائد کے لیے طنز و مزاح کے پیرائے میں معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔ فکاہیہ کالم ہر خاص و عام میں مقبول رہے ہیں۔ انہی فکاہیہ نگاروں میں طفیل احمد جمالی بھی شامل ہیں جو ایک ادیب، شاعر اور صحافی بھی تھے۔

طفیل احمد جمالی کا تذکرہ اب شاذ ہی ہوتا ہے مگر وہ اپنے وقت کے مشہور صحافی، مدیر اور بحیثیت فکاہیہ نگار خاصے مقبول تھے۔ ان کے کالم بہت پسند کیے جاتے تھے۔ طفیل احمد جمالی 12 اگست 1974ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

طفیل صاحب 1919ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کے بعد منشور دہلی سے منسلک ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے جہاں مختلف مؤقر روزناموں سے منسلک رہے۔ طفیل جمالی نے انجام، نگار، لیل و نہار اور نمکدان کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔

انھوں نے ملکی حالات اور سیاست کو موضوع بنانے کے ساتھ سماجی برائیوں اور مختلف واقعات پر فکاہیہ کالم لکھے جن کو پسند کیا گیا۔ طفیل احمد جمالی نے چند فلموں کے لیے گیت اور مکالمے بھی تحریر کیے تھے۔

وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔