پوری دنیا پر ایک ہی آسمان سایہ فگن ہے تاہم اس قدرتی نیلی چھت میں چھپے قدرتی مظاہر کو کیسے آشکار کیا جائے فلکیاتی فوٹوگرافر نے بتا دیا۔
یوں تو دنیا میں ایک ہی نیلگوں آسمان سایہ فگن ہے، مگر یہ فوٹو گرافرز کی مہارت ہوتی ہے کہ وہ کائنات میں چھپے کئی اسرار اپنے ہنر سے آشکار کرتے ہیں۔ ایسا ہی سعودی عرب میں فلکیاتی فوٹو گرافی کا شوقین نوجوان فیصل الیعیش ہے جس نے مملکت کے آسمان کی دلفریب فوٹو گرافی کی ہے۔
عرب میڈیا سے گفتگو میں فیصل الیعیش نے سعودی عرب کے آسمان میں فلکیاتی فوٹو گرافی کے دوران اپنے حاصل ہونے والے تجربات سے آگاہ کیا ہے اور اس شعبہ میں آنے والے نوجوان فوٹوگرافرز کی رہنمائی کی ہے۔
فیصل نے بتایا کہ انہوں نے اب تک مملکت کے آسمان کی کئی تصاویر بنائی ہیں جو قدرت کے شاہکاروں کے راز بتاتی ہیں۔ وہ اس کام میں جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے ایسی درست تفصیلات سامنے آتی ہیں جن کو محض انسانی آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔
نوجوان فلکیاتی فوٹو گرافر نے بتایا کہ وہ اپنا ہنر آزمانے کے لیے دستی ٹیلی اسکوپ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیلی اسکوپ پر موبائل ہولڈر اور مختلف حجم کے عدسے بھی استعمال کرتے ہیں۔ فلکیاتی فوٹو گرافر نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال تصاویر کے معیار کو بڑی حد تک بہتر بنا دیتے ہیں۔
فیصل فوٹو گرافی کے دوران فلکیاتی پروگرام مثلاًStellarium اور Sky Guide پر اعتماد کرتے ہیں، جو آسمانی گنبد کی راہ دکھاتے ہیں تا کہ آسمانی اجسام کی جگہوں کا تعین کیا جا سکے اور ٹیلی اسکوپ کا رخ زیادہ درست سمت کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ میں نے ہولڈر پر ایک دستی ٹریکر کا بھی اضافہ کیا ہے جو مجھے بعض سیاروں کی زیادہ واضح تصاویر لینے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
نوجوان فوٹو گرافر کے مطابق تصاویر لینے کے بعد وہ ان کو زیادہ پر کشش بنانے کے لیے مختلف سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہیں، جن میں , PIPP ,AutoStakkert ,RegiStax 6 ,Lightroom Adobe Photoshop شامل ہیں۔
تصاویر لینے کا بہترین وقت اور مقام:
اس بارے میں فیصل کہتے ہیں کہ رات کے وقت آسمان کی لی گئی تصاویر بہترین شاہکار ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ اس وقت لی گئی تصاویر روشن ستاروں اور سیاروں اور کہکشاؤں کو دیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دن کے وقت کی تصاویر کا بھی اپنا حسن ہے اور اس کے بھی لوگ دیوانے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر وہ جو خصوصی عدسوں کا استعمال کرتے ہوئے سورج کا پتا چلاتے ہیں۔
فیصل نے بتایا کہ تصاویر کے لیے بہترین مقامات کے انتخاب سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کم روشنی کی آلودگی والے مقامات تلاش کرتا ہوں جیسا کہ صحرا اور بلند جگہیں، مثالی مقامات کے تعین کے لیے میں خصوصی نقشوں سے مدد لیتا ہوں، شہروں سے دور جگہیں ہمیشہ بہتر ہوتی ہیں جہاں آسمان اور افق کی واضح رؤیت میسر ہوتی ہے۔
تصاویر لینے کا سب سے مشکل مرحلہ:
اس حوالے سے فیصل الیعیش نے کہا کہ تصویر بظاہر ایک کلک لگتی ہے کہ کیمرہ نے منظر دیکھ کر بٹن دبایا اور تصویر بن گئی، مگر یہ سب اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات واضح تصویر حاصل کرنے کے لیے طویل دورانیے تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور وہ کبھی کبھار 12 گھنٹوں سے بھی طویل ہو جاتا ہے۔
نئے فوٹو گرافرز کو مشورہ:
فلکیاتی فوٹو گرافر نے اس فیلڈ میں آنے والے نئے فوٹو گرافرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ موسم گرما میں بلند درجہ حرارت، رطوبت اور تیز ہوا یہ سب اس کام میں نمایاں چیلنج ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ ریت جو ساز و سامان کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس صورتحال میں وہ ٹیلی اسکوپ کی حفاظت کے لیے خصوصی غلاف استعمال کرتے ہیں اور نوجوان بھی اس فیلڈ میں یہی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔