جانثار اختر: ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور فلمی صنعت کا بڑا نام

جانثار اختر کو ان کی فلمی شاعری کے علاوہ غزل اور نظم میں ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کے ایک ایسے شاعر تھے جنھوں‌ نے اہم سیاسی اور ادبی تحریکوں‌ اور نئے رجحانات کو دیکھا اور کئی بڑے ناموں کے درمیان اپنی شناخت اور پہچان بنائی۔

18 فروری 1914 کو گوالیار (بھارت) میں پیدا ہونے والے جانثار اختر کو بیسویں صدی کا ایک اہم بھارتی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک کے رکن رہے اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ 19 اگست 1976 کو جانثار اختر ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

جانثار اختر کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد مظفر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں شاعر تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد جانثار اختر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا۔ 1943ء میں ان کی شادی معروف شاعر مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر تھے۔ آزادی کے بعد گوالیار میں فسادات پھوٹ پڑے تو جانثار اختر بھوپال منتقل ہو گئے۔ بھوپال میں انہوں نے حمیدیہ کالج میں اردو اور فارسی کے شعبے سنبھال لیے۔ بعد میں ان کی اہلیہ صفیہ بھی حمیدیہ کالج سے وابستہ ہو گئیں۔ جلد ہی دونوں میاں بیوی تحریک ترقی پسند مصنفین میں شامل ہو گئے۔ جانثار اختر کو اس تحریک کا صدر بنا دیا گیا۔ 1949ء میں انہوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور ممبئی چلے گئے۔

ممبئی جانثار اختر نے فلمی گیت لکھنا شروع کیا جہاں ان کی ملاقات ملک راج آنند کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی جیسے ترقی پسند ادیبوں سے ہوئی۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور خاص طور پر ان کے وہ خطوط بہت مشہور ہوئے جو انہوں نے اپنی بیوی صفیہ کے نام لکھے تھے۔ ان خطوط کے مجموعے 1955 میں شائع ہوئے۔

شاعری کی بات کی جائے تو جانثار اختر کے ہاں معروضی صداقتوں کا برملا اظہار ملتا ہے اور ان کے اشعار میں رومانویت بھی ملتی ہے۔ جانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’سلاسل‘‘، ’’جاوداں‘‘، ’’پچھلی پہر‘‘، ’’گھر آنگن‘‘ اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔ ’’خاک دل‘‘ وہ مجموعہ ہے جس پر انہیں 1976 میں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ ملا۔

اس شاعر کو اے آر کاردار کی فلم ’’یاسمین‘‘ کے نغمات سے شہرت ملی۔ بعد میں‌ انہوں نے 1967 میں بہو بیگم کے نام سے فلم بنائی اس فلم کا اسکرپٹ بھی خود لکھا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی دوسری فلموں کے اسکرپٹ اور مکالمے بھی لکھے تھے جو بہت کام یاب رہیں۔