یادِ رفتگاں: وحشت کلکتوی

wahshat kalkatvi

وحشت کلکتوی کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے

زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا
ہماری بے کسی کو دیکھ کر سارا جہاں رویا

ایک حساس طبع اور جذبات کی شدت کے ساتھ مصائب و آلام کو تڑپ کے بیان کرنے والے وحشت کلکتوی کا تعلق مغربی بنگال سے تھا۔ وہ کولکتہ میں پیدا ہوئے تھے اور بعد میں اس شہر کو خیرباد کہہ دیا تھا۔

نوجوانوں اور ادب کے نئے قارئین کے لیے شاید یہ قلمی نام یا تخلّص کچھ عجیب سا ہو، مگر اس دور میں شعرا اسی طرح تخلّص رکھا کرتے تھے۔ آپ نے فانی، درد، حسرت، دلگیر وغیرہ کا تذکرہ شاید سنا ہو۔ کلاسیکی دور کے شعرا میں یہ تخلّص عام تھے۔ وحشت کی بات کریں تو انھیں مضمون آفرینی اور ندرتِ خیال کے سبب پسند کیا جاتا تھا۔ سادگی و سلاست کے ساتھ بات سے بات نکالنے کا ڈھنگ وحشت کلکتوی خوب جانتے تھے۔ شعریت ان کے کلام کا ایک بنیادی وصف معلوم ہوتی ہے۔

وحشت کلکتوی کا اصل نام رضا علی تھا۔ انھیں اردو ادب میں ان کے قلمی نام وحشت کلکتوی سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے فن و شخصیت پر کتابیں بھی موجود ہیں اور ادبی مضامین لکھنے والوں نے انھیں اور ان کی شاعری کو موضوع بنایا ہے۔ وحشت کی شعری تصانیف میں ”مضامینِ وحشت، ترانۂ وحشت، اور دیوانِ وحشت‘‘ قابل ذکر ہیں۔

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بہت سے مسلمان خاندان مغربی بنگال کے علاقوں میں جا بسے تھے۔ ان میں ضلع ہُگلی، مرشد آباد اور کلکتہ (اب کولکتہ) کے خاندان بھی شامل ہیں۔وحشت کے خاندان کے لوگ بھی دہلی سے نکل کر بنگال چلے گئے تھے۔ لیکن ان کے والد سید شمشاد علی کلکتہ میں رہائش پذیر ہوئے جہاں 18 نومبر 1881ء کو وحشت کلکتوی نے آنکھ کھولی۔ اس دور میں کلکتہ ایک بڑا شہر تھا اور برطانوی حکومت نے اسے دارالحکومت بنایا ہوا تھا۔ بعد میں یہ حیثیت دہلی کو دی گئی تھی۔ وحشت نے کلکتہ میں مدرسہ عالیہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی شاعری کا آغاز چھوٹی عمر میں ہی ہوگیا تھا۔ وحشت کے اتالیق معروف شاعر عبدالقاسم شمس کلکتوی تھے جن سے وحشت نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ بعد میں وحشت اردو اور فارسی کے مدرس مقرر ہوئے اور مشاعروں میں بھی شریک ہونے لگے۔ ایک وقت تھا کہ مرشد آباد ، عظیم آباد ، ڈھاکہ، ہوگلی جیسے بڑے بڑے شہروں میں ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد رہی تھی۔ ان کا شمار اساتذہ میں ہونے لگا تھا۔ تدریس کے ساتھ ان کے ادبی مشاغل اور مصروفیات جاری تھیں کہ کولکتہ میں فسادات شروع ہوگئے اور وحشت کلکتوی نے مجبورا اپنا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا وہ 1950ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں جا بسے تھے۔ وہیں 20 جولائی 1956 کو ان کا انتقال ہوا۔

وحشت کلکتوی نے شاعری کے علاوہ زبان و بیان اور قواعدِ اردو پر ایک کتاب بھی تحریر کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اردو غزل کی کلاسیکی روایت کو خوبصورتی سے آگے بڑھایا۔ ان کے کلام میں جمالیاتی طرز احساس عروج پر نظر آتا ہے۔

ان کا یہ شعر دیکھیے:
کسی صورت سے اس محفل میں جا کر
مقدر ہم بھی دیکھیں آزما کر

وحشت کو بنگال کا غالب کہا جاتا تھا۔ انھیں یہ لقب الطاف حسین حالی جیسے ممتاز ادیب، نقاد اور شاعر نے دیا تھا۔ اردو اور فارسی کے اس معروف شاعر کو ڈھاکہ کے عظیم پورہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔​