عندلیب شادانی اردو کے معروف شاعر، افسانہ نگار، نقّاد، محقّق اور مترجم تھے جن کی غزل کے یہ دو شعر بہت مشہور ہیں اور آپ نے بھی سنے ہوں گے۔
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
ڈاکٹر عندلیب شادانی نے اپنی زندگی کا طویل حصہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے دارالحکومت ڈھاکہ میں اردو اور فارسی ادب کی خدمت کرتے ہوئے گزارا۔ تعلیم و تدریس ان کا پیشہ تھا اور وہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین رہے۔ کئی پاکستانی جامعات کی کمیٹیوں کے ممبران میں ان کا نام سر فہرست رہتا تھا۔ اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی عندلیب شادانی کو غیر معمولی قدرت و استعداد حاصل تھی۔ لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے شادانی صاحب کی تصانیف اور تالیفات کی تعداد 16 کے قریب ہے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’’نشاطِ رفتہ‘‘ کے نام سے شایع ہوا جب کہ ’’پریم پجاری‘‘ کے عنوان سے سچی کہانیوں نے عندلیب شادانی کو بہت شہرت دی۔ ان کی تنقید پر مبنی کتاب ’’دورِ حاضر اور اردو غزل گوئی‘‘ کو ادبی دنیا میں بہت اہمیت حاصل ہوئی تھی۔
عندلیب شادانی 29 جولائی 1969 کو وفات پاگئے تھے۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر شادانی کو آج ادبی دنیا تقریباً فراموش کر چکی ہے اور نئے لکھنے والوں کی اکثریت ان کے نام اور کام سے واقف نہیں ہے۔
ڈاکٹر عندلیب شادانی کا اصل نام وجاہت حسین صدیقی اور عندلیب ان کا تخلص تھا۔ان کا آبائی وطن سنبھل، ضلع مراد آباد (یوپی) تھا جہاں وہ یکم دسمبر 1896 کو پیدا ہوئے۔ وہ شروع ہی سے شاعری کی طرف مائل تھے اور شعر کہنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ عندلیب شادانی نے رام پور میں تحصیلِ تعلیم کے دوران اپنے استاد، شاداں بلگرامی سے عقیدت کی بنا پر اپنے نام کے ساتھ شادانی کا لفظ جوڑا تھا۔
عندلیب شادانی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ: ’’شاعری سے ذوق چھوٹی عمر میں پیدا ہو گیا تھا، جس میں اپنے وطن کے ماحول کو بڑا دخل تھا۔ اس زمانے میں سنبھل، ضلع مراد آباد میں اکثر طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے، میں بھی ان مشاعروں میں شرکت کرتا تھا۔ کم عمری میں اس طرح کے ایک طرحی مشاعرے میں چند اشعار بھی کہے تھے جو محفوظ نہ رہ سکے۔ پھر ریاست رام پور کے زمانہ طلب علمی میں بھی یہ شغل جاری رہا۔ اس وقت باقاعدہ شاعری تو نہ کرتا تھا مگر اس زمانے کے اشعار سے اتنا اندازہ ضرور ہو گیا کہ شاعری کے لئے طبیعت موزوں پائی ہے۔‘‘ غرض بچپن سے ان کی طبیعت شعر و شاعری کی طرف مائل تھی۔ مگر باقاعدہ شاعری کی ابتدا 1924ء سے ہوئی، جب وہ لاہور میں زیر تعلیم تھے۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں: میری شاعری کی ابتدا نظم سے ہوئی اور ’’تصویرِ بہار‘‘ میری پہلی نظم ہے جو دیال سنگھ کالج، لاہور کی بزمِ ادب کے ایک جلسے میں 29 جون 1924ء کو پڑھی گئی۔ سامعین کی بے اختیار داد و تحسین نے دل بڑھایا اور میری دوسری نظم ’’شالامار‘‘ وجود میں آئی۔ اس نظم نے ایک نووارد کو لاہور کے ادبی حلقوں میں اچھی طرح روشناس کرا دیا۔‘‘
حکومتِ پاکستان نے عندلیب شادانی کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔