کسی خوش حال ریاست میں ایک جوہری اپنے قیمتی پتھروں اور سونے کی خرید و فروخت کے کاروبار کی وجہ سے بہت شہرت رکھتا تھا۔ اس کا کاروبار بڑے شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ جوہری نے منشی اور بہت سے ملازم رکھے ہوئے تھے جن پر اسے مکمل بھروسا تھا۔ ریاست کا سلطان، شہر کے کئی رئیس اس کے مستقل گاہک تھے۔ مال و دولت کی فراوانی تھی۔ ایک روز جوہری نے سوچا کہ اسے کچھ وقت سیروسیاحت کو دینا چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے کاروبار اور گھر بار کے معاملات پر اپنے خاص اور قابلِ اعتماد ملازموں کو نگراں بنایا اور اپنے ملک کی سیر کو نکل پڑا۔
جوہری اپنے بچپن کے چند دوستوں اور دو خدمت گاروں کو ساتھ لے کر کئی مقامات پر گیا اور بہت سے عجائبات دیکھے۔ وہ سب بہت خوش تھے۔ جوہری کو روپے پیسے کی کمی نہ تھی، سو اس نے اپنے ساتھیوں کو خوب اچھا کھانا کھلایا اور قیام کے لیے پرآسائش سرائے کا انتخاب کیا۔ ایک دن جوہری اپنے ملک کے ایک سرسبز و شاداب پہاڑی علاقہ میں سیر کو پہنچا۔ وہاں سرائے میں قیام کے دوران اسے کیا سوجھی کہ اپنے دوستوں اور خدمت گاروں کو چھوڑ کر تنہا ایک مشہور پہاڑ کو دیکھنے نکل گیا۔
جوہری کو اس کی مسافت اور راستے کی مشکلات کا درست اندازہ نہیں تھا۔ وہ اس مشہور پہاڑ کے قریب تو پہنچ گیا مگر منزل ابھی دور تھی۔ جوہری نے جو کھانا ساتھ لیا تھا وہ ختم ہوگیا اور مسلسل چلنے سے اسے بھوک ستانے لگی۔ ابھی وہ بھوک کو نظر انداز کرکے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کی تگ و دو میں تھا کہ اس کی نظر ایک عورت پر پڑی جو وہاں ایک تھیلا لیے بیٹھی تھی۔ جوہری کو اسے یوں تنہا اس مقام پر دیکھ کر حیرت تو ہوئی مگر اس نے زیادہ غور نہ کیا۔اس نے سلام دعا کے بعد اس عورت سے پوچھا کہ کیا وہ اسے کچھ کھانے کو دے سکتی ہے۔ عورت نے اپنا تھیلا کھولا اور میں سے کچھ خوراک نکال کر اجنبی مسافر کی طرف بڑھا دی۔ یہی وہ وقت تھا جب جوہری نے اس کے تھیلے میں ایک قیمتی پتھر پڑا ہوا دیکھ لیا۔ جوہری نے عورت کا دیا ہوا کھانا ختم کیا اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولا ’’اے مہربان خاتون! آپ کے تھیلے میں ایک پتھر موجود ہے جو مجھے پسند آیا ہے، اگر آپ مجھے وہ دے دیں تو آپ کا احسان ہوگا۔‘‘ جوہری سمجھ رہا تھا کہ وہ عورت شاید اس پتھر کی قیمت سے واقف نہیں۔ عورت نے بھی بڑی بے نیازی کے ساتھ وہ پتھر اس اجنبی کو نکال کر دے دیا۔ جوہری بہت خوش ہوا اور دل ہی دل میں اس کی قیمت لگانے لگا، جو بہت زیادہ ہوسکتی تھی۔ اب اس نے عورت سے اجازت چاہی اور پہاڑ پر جانے کے بجائے واپس سرائے لوٹنے کا قصد کرکے آگے بڑھ گیا۔ وہ سرائے پہنچا اور دوستوں کے پوچھنے پر بہانہ بنا کر ٹال دیا۔ جوہری نے اس پتھر کے بارے میں انھیں کچھ نہ بتایا۔ لیکن وہ رات کو ٹھیک سے نہ سویا۔ وہ عجیب بے چینی محسوس کررہا تھا۔ اس کی آنکھ بار بار کھل رہی تھی اور پھر وہ کچھ سوچنے لگا۔
اگلی صبح وہ ایک مرتبہ پھر سرائے سے دوستوں کو بتائے بغیر نکل پڑا۔ وہ اس اجنبی عورت سے ملاقات کے ارادے سے نکلا تھا۔ وہ ایک بار پھر پہاڑ پر آیا اور اس عورت کو تلاش کرنے لگا۔ خوش قسمتی سے کچھ ہی فاصلے پر عورت بیٹھی ہوئی ملی۔ عورت نے مسکراتے ہوئے پوچھا: ’’اب کیا چاہیے؟‘‘
جوہری بولا: ’’اے مہربان اور دانا عورت! یہ پتھر واپس لے لیجیے۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘عورت نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔
جوہری بولا: ’’میں نے آپ سے یہ بیش قیمت پتھر مانگا، اگر کوئی اور انسان ہوتا تو وہ ہرگزمجھے نہ دیتا لیکن آپ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مجھے یہ پتھر دے دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اس سے بڑی کوئی دولت ہے جس کا مجھ جیسے آدمی کو ہرگز علم نہیں ہوسکتا۔ مگر میں نے رات عجیب بے چینی محسوس کی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اتنا قیمتی پتھر پاکر یہ بے چینی اور ناآسودگی کیسی؟ تب دل نے کہا کہ یقینا آپ عام انسانوں سے مختلف اور کوئی برگزیدہ ہستی ہیں جس سے میں ملا اور صرف یہ پتھر لے کر لوٹ گیا۔ مجھے یہ نہیں چاہیے، بس مجھے وہ حکمت دے دیجیے، جس نے آپ کو ایسا بڑا دل اور بڑا ظرف دیا ہے کہ آپ نے ایک اجنبی کی فرمائش پر اتنا بیش قیمت پتھر اسے یونہی دے دیا۔‘‘
یہ سن کر وہ عورت مسکرائی اور بولی، جس انسان کو اللہ تعالیٰ علم و حکمت سے نواز دیتا ہے، اس کا دل بھی بڑا ہو جاتا ہے۔ دنیا دار کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ جتنی دولت اور متاع حاصل کرتا ہے، اس سے زیادہ کی ہوس ہوتی ہے اور وہ دینے والوں میں سے نہیں رہتا بلکہ اپنی دولت کو تقسیم کرنے سے خوف کھاتا ہے۔ تم غور کرو کہ تم ان لوگوں میں سے تو نہیں؟ یہ کہہ کر وہ عورت وہاں سے اٹھ کر چل دیتی ہے۔
(ایک قدیم حکایت)