حکیم لقمان کسی جنگ کے دوران گرفتار ہوئے اور انھیں ایک بازار میں کسی امیر تاجر کے ہاتھوں بیچ دیا گیا۔ وہ سیاہ فام تھے اور شکل و صورت اور حلیے سے بہت سادہ نظر آتے تھے جب کہ دوسرے غلام خوب صورت اور اچھی شکل و صورت کے مالک تھے۔
اس حکایت کو آگے بڑھانے سے پہلے بتاتے چلیں کہ تفسیر ابنِ کثیر کے مطابق، حضرت لقمان، سوڈان کے نوبی قبیلے کے ایک حبشی تھے، لیکن بلا کے نیک، عابد و زاہد اور دانا شخص تھے۔ عرب میں وہ ایک غلام کی حیثیت سے آئے تھے۔
جس شخص نے انھیں خریدا تھا، اس کے دوسرے خوب صورت غلام ہمیشہ لقمان کا مذاق اڑایا کرتے اور اپنے مالک سے ان کی جھوٹی شکایتیں کرتے۔ ان کا مقصد لقمان کو تنگ کرنا اور اذیت پہنچانا تھا۔ لیکن لقمان خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے اور مالک کے آگے شکایت نہیں کرتے۔
یہ بات سارے غلاموں کے لیے باعثِ رشک ضرور تھی کہ لقمان زندگی اور اپنے فرائض سے متعلق ہمیشہ حکمت اور دانائی کی باتیں کرتے تھے اور سننے والے دنگ رہ جاتے۔ شاید اسی وصف نے دوسرے غلاموں کو حسد میں بھی مبتلا کردیا تھا۔ وہ ان سے فہم و فراست اور دانائی میں تو بڑھ نہیں سکتے تھے اور نہ ان کا جوہر چھیننے پر قدرت رکھتے تھے۔ اس لیے اپنا دل خوش کرنے کو حضرت لقمان کو تکلیف دیتے رہتے۔
ان کا آقا پھلوں کے باغات کا مالک تھا۔ لقمان بھی اکثر دوسرے غلاموں کے ساتھ باغ سے پھل توڑنے کے لیے جاتے تھے۔ دوسرے غلام خیانت کے عادی تھے۔ وہ بہت سے پھل وہیں کھا جاتے تھے جب کہ لقمان اسے حرام سمجھتے تھے کہ مالک کی اجازت کے بغیر اس کا مال کھایا جائے۔ ایک مرتبہ مالک کو کسی نے بتایا کہ غلام ان کی اجازت کے بغیر بہت سے پھل کھا جاتے ہیں اور پوچھنے پر سب نے اس کا الزام لقمان کے سر تھوپ دیا۔ آقا لقمان پر بگڑ گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب لقمان نے اس بارے میں صفائی دی۔ انھوں نے کہا، اے آقا میں نے آج تک امانت میں خیانت نہیں کی، ہمیشہ سچ بولا اور میں جانتا ہوں کہ بے ایمان شخص کی بخشش نہیں ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ ہم سب غلاموں کا امتحان لیں، وہ اس طرح کہ سب کو پیٹ بھر کر گرم پانی پلائیں، آپ خود گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل کی طرف روانہ ہوں اور غلاموں کو اپنے گھوڑے کے ساتھ ساتھ دوڑنے کا حکم دیں، اس طرح سچ اور جھوٹ سامنے آجائے گا۔
حضرت لقمان کے مالک نے کچھ سوچ کر ہامی بھر لی۔ ایک روز جب لقمان سمیت دوسرے غلام باغ سے لوٹے تو مالک کے حکم پر سب کو گرم پانی پینا پڑا اور پھر آقا نے کہا کہ وہ اس کے گھوڑے کے ساتھ دوڑیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑی دور جا کر سب ایک ایک کر کے قے کرنے لگے۔ جس نے جو کچھ کھایا تھا سب باہر آگیا۔ اس طرح غلاموں کا جھوٹ آقا پر کھل گیا۔ صرف لقمان کے پیٹ سے وہی باہر نکلا جو ان کی معمول کی غذا تھی۔
مالک نے حضرت لقمان کی دیانت داری اور سچائی کو تسلیم کرلیا اور ان سے معافی مانگتے ہوئے گھر کا سارا انتظام ان کے سپرد کردیا اور انھیں غلاموں کا سردار بنا دیا۔