یہ جب کی بات ہے جب شیر خان نے لالہ بنسی دھر سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے۔ اس وقت اس کا دوست جیون بھی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ لالہ نے یہ روپے چھ ماہ کی مدت پر دیے تھے۔ لیکن جب یہ مدّت گزر گئی۔ تو شیر خان نے دو ماہ کی مدّت طلب کی جو لالہ نے دے دی۔ مگر دو کیا جب چار ماہ گزر گئے اور لالہ بنسی دھر روپیہ مانگنے گیا تو شیر خان نے روپیہ دینے سے انکار کر دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ تم جھوٹ بولتے ہو میں نے تم سے کوئی روپیہ نہیں لیا۔ جاؤ رپٹ لکھا دو تھانے میں۔
بس اب تو بات ہی الٹ گی۔ شیر خان نے نہ صرف یہ کہ ایک سال گزر جانے پر روپے نہیں دیے، بلکہ اس بات سے ہی انکار کردیا کہ اس نے روپے لیے ہیں۔
کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
لالہ بنسی دھر کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس کو یاد آیا کہ روپیہ دیتے وقت جیون بھی وہاں بیٹھا تھا۔ جیون بڑا سچا پکا اور نمازی آدمی تھا، اسی لیے لوگ اس کو ملا جیون کہتے تھے۔ لالہ بنسی دھر نے عدالت میں درخواست لگا دی اور یہ بھی لکھ دیا کہ ملا جیون سے اس کی تصدق کر لی جائے۔
شیر خان کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بہت پریشان ہوا۔ لیکن اس کو یہ اطمینان ہوا کہ معاملہ ملّا جیون کے ہاتھ میں ہے اور ملّا جیون اس کا پکّا دوست ہے۔ وہ فوراً ملّا جیون کے پاس گیا اور سارا معاملہ اس کو سنا دیا اور یہ کہا، ’’یہ میری عزّت کا سوال ہے میں تم کو اپنی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں۔‘‘
ملّا جیون بہت پریشانی میں پھنس گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے سوچ کر کہا، ’’شیر خان اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا دوست۔ ایک پرانا۔ تو اس کو کس کا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘
شیر خان نے چمک کر کہا۔ پرانے کا۔ میں تو تمہارا پرانا دوست ہوں۔‘‘ شیر خان ملاّ جیون کی اس بات کی گہرائی کو نہ جان سکا اور یہ سمجھ لیا کہ وہ اسی کے حق میں گواہی دے گا۔ وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔
چند ہفتہ بعد عدالت میں پیشی ہوئی۔ بنسی دھر نے اپنا معاملہ پیش کیا۔ جج صاحب نے بہ حیثیت گواہ ملّا جیون کو طلب کیا۔ شیر خان بہت خوش تھا۔ اس کی دوستی کام آ رہی تھی۔ ملّا جیون آیا اور بیان دیا: ’’لالہ بنسی دھر سچ کہتا ہے، اس نے شیر خان کو پانچ سو روپے میرے سامنے دیے تھے۔ شیر خان جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا اور شیر خان کو دو ہفتہ کے اندر ادائیگی کا حکم دے دیا۔
شیر خان شیر کی طرح بپھرا ہوا ملّا جیون کے پاس آیا اور کہا ’’تم دھوکے باز ہو تم نے مجھے دھوکا دیا۔‘‘
ملّا جیون نے نرمی سے کہا، ’’ناراض مت ہو۔ میں نے یہ کام تمہارے مشورہ سے کیا۔‘‘
’’میرا مشورہ….کیا خاک مشورہ۔‘‘ شیر خان غصّے سے بولا۔
ملّا جیون نے کہا ’’تم کو یاد نہیں؟ میں نے کہا تھا کہ اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا، ایک پرانا۔ تو اس کو کس کا کہا ماننا چاہیے۔ تم نے جواب دیا پرانے کا۔ بس پھر میں نے تمہارے مشورہ پر عمل کیا۔ اور پرانے دوست کا کہنا مانا۔‘‘
’’کون ہے تمہارا پرانا دوست؟‘‘ شیر خان نے چمک کر کہا۔
’’میرا پرانا دوست اللہ ہے۔‘‘ ملّا جیون نے کہا۔ ’’جس سے میری پچاس سال پرانی دوستی ہے۔ روز میں اس کے پاس وقت گزارتا ہوں، اس کی باتیں سنتا ہوں، اپنی باتیں سناتا ہوں۔ اس نے کہا دیکھو جھوٹ کبھی نہیں بولنا۔ بس میں نے یہ کام اس کی دوستی کی خاطر کیا۔ رہا تمہارے قرضہ کا سوال تو کل میں نے اپنا مکان رہن رکھ کر لالہ بنسی دھر کو پانچ سو روپے دے دیے ہیں۔ اب وہ تمہارے پاس رقم کا مطالبہ کرنے نہیں آئے گا۔‘‘