پروانہ ہال اور کتاب کی رسمِ اجراء

مشاہیر اور فن و ادب کی دنیا کی ممتاز شخصیات کی سوانح عمری اور ادبی تذکرے ہمیشہ قارئین کی توجہ اور دل چسپی کا باعث بنتے ہیں۔ ان تحریروں کی بدولت مشاہیر کے بارے میں ہمیں بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے۔

یہ ایک ایسا ہی ادبی تذکرہ ہے جو ادیب اور مصنّف عوض سعید کے قلم کی نوک سے نکلا ہے۔ یہ اردو زبان کے معروف شاعر، مصنّف اور نقاد راشد آزر سے متعلق ہے۔ عوض سعید لکھتے ہیں:

مجھے یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں نے راشد آذر کو قریب سے دیکھا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اس سے میری یاری نہیں ہے یا رفاقت کی خوشبو سے اس کی شخصیت عاری ہے۔

وہ شاعر اچھا ہے یا آدمی، اس سلسلہ میں کوئی حتمی رائے دینا مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ پھر ایک خاکہ نگار کو کیا پڑی کہ وہ تنقید نگار کے منہ کا نوالہ خواہ مخواہ جھپٹ لے۔ اپنی شخصیت کو مذاق کا ہدف بنانا بڑے جی گردے اور ظرف کا کام ہے۔ یہ ظرف میں نے صرف راشد آذر کی تیکھی شخصیت ہی میں دیکھا ہے۔ سیاست میں ’’Committed‘‘ ہونا ایک اچھی علامت ہے۔ لیکن وہ ادب میں بھی ایک Committed شاعر کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ وہ اقبال متین کی طرح ہر ملنے جلنے والے کو پیارے یا میری جان کہہ کر مخاطب نہیں کرتا۔

اقبال متین کے ذکر پر ایک واقعہ یاد آ گیا۔ پروانہ ہال میں اس کی کتاب کی رسمِ اجراء کی تقریب منائی جانے والی تھی۔ اس نے پہلے ہی طے کر رکھا تھا کہ صدر اقبال متین ہی رہیں گے۔

اقبال متین بھی ایک طرح سے خوش ہی تھے۔ جلسہ کوئی ٧ بجے شروع ہونے والا تھا۔ میں ٹھیک سوا سات بجے جب پروانہ ہال پہنچا تو لوگ آہستہ آہستہ آتے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ جوں ہی اس کی نگاہیں مجھ سے ٹکرائیں وہ لپک کر میرے قریب آیا۔ کہاں ہے بھئی آپ کے اقبال متین، سات بج چکے ہیں۔

میں نے جواباً اس سے کہا۔ ’’ابھی تو صرف سات بج کر پندرہ منٹ ہی ہوئے ہیں۔‘‘

’’کیا مطلب۔ ؟‘‘

’’مطلب یہ کہ کچھ دیر انتظار کر لو۔ صدر تو مرتا جیتا کسی طرح آ ہی جاتا ہے۔‘‘

پھر اس نے شاذ سے مخاطب ہو کر قدرے ناراضگی سے کہا۔ ’’مجھے وقت کی پابندی نہ کرنے والے لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے۔‘‘

’’میری جان وقت کے معاملہ میں تم انگریزوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہو۔ وہ وقت پر آتا ہے۔ تم وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے آ جاتے ہو۔ تھوڑا سا انتظار کر لو۔ اس کے بعد تم چاہو تو کسی کو بھی صدارت سونپ سکتے ہو۔ ‘‘

’’اب ان کا انتظار فضول ہے۔ تم ان کی جگہ صدر بننے کے لے بالکل تیار ہو جاؤ۔

’’بلکہ ابھی کرسی صدارت پر جا کر بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

شاذ نے کہا۔ ’’میں ایک شرط پر صدارت قبول کرتا ہوں۔ میں صدر بننے کے بعد اس جگہ سے نہیں ہٹوں گا۔ ‘‘

’’کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ دیر سے آنے والے کو کچھ سزا بھی تو ملنی چاہئے۔ ‘‘ راشد نے اطمینان کے لہجے میں کہا۔

کچھ دیر سوچنے کے بعد شاذ نے مجھ سے پوچھا۔ تمہارا کیا خیال ہے عوض؟ وہاں تو گاڑی چھوٹ جانے والا منظر تھا۔ پتہ نہیں میں نے روا روی میں کیا کہا۔ شاید ہامی ہی بھری ہو۔ لیکن جب میں نے اپنی نشست سنبھالی تو مائیک کے ذریعہ شاذ کو ڈائس پر آ کر صدارت کرنے کی دعوت دی جا رہی تھی۔ مغنی تبسم نے اپنی کرسی سنبھال لی تھی اور دوسرے ساتھی بھی تھے جو راشد کی شاعری پر پیپر پڑھنے کے لیے آ بیٹھے تھے۔ جس جگہ اقبال متین کو بیٹھنا تھا اب اس جگہ شاذ براجمان تھے اور اقبال متین کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔

لوگوں نے کافی دیر بعد جب اقبال متین کو جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہوے دیکھا تو اُن کی نگاہیں صاف چغلی کھا رہی تھیں کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ شاید اقبال متین نے بھی شدید انداز میں یہی محسوس کیا ہو کہ یہاں تو پانسہ ہی پلٹ گیا ہے۔ ایک طرف شاذ ہے جس سے ان کی یاری ہے۔ دوسری طرف صدارت اور انگریز راشد۔

متین نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ کیوں نہ اپنی شخصیت کو بھول بھال کر سامع بن جائیں۔ اور عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے عوامی ادیب ہونے کا ثبوت دیں۔ لیکن شاذ نے اشارۃً انھیں ڈائس پر آنے کی دعوت دے ہی دی۔ ڈائس پر پہنچنے پر بھی وہ ایک معصوم سامع کی طرح چپ چاپ بیٹھے رہے۔ کبھی کبھی شاذ اور راشد کی طرف مڑ کر اس طرح دیکھتے جیسے کہہ رہے ہوں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے پیارے۔ دیر سے آنے کی اتنی بڑی سزا آج تک کسی نے کسی کو دی ہے مگر راشد وقت کی پابندی کے معاملہ میں بڑا سفاک اور ظالم ہے۔ وہ پلک جھپکتے ہی وہ سب کچھ کر جاتا ہے جس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔

اقبال متین یوں بھی دیگر تو تھے ہی۔ جاتے جاتے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور راشد پر چلا دیا۔

’’جناب کیا آپ فلاں صاحب کے ذریعہ اپنی کتاب کی رونمائی کرواتے اور اگر وہ وقت پر نہ آئے ہوتے تو کیا آپ ایسا کرسکتے تھے۔ ہرگز نہیں آپ گھنٹوں ان کا انتظار کرتے۔ ‘‘

اقبال متین کا کہا ہوا وہ سخت جملہ آج تک راشد کے حلق میں مچھلی کے کانٹے کی طرح پھنسا ہوا ہے۔

راشد کو اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو وہ مخاطب کے سامنے ہی سب کچھ کھری کھری سنا ڈالتا ہے۔ تاکہ غیبت کی نوبت ہی نہ آئے۔ میں نے بارہا شاذ سے اس کو اس طرح الجھتا دیکھا ہے۔

ایک بار اکبر حیدرآبادی۔ لندن سے حیدرآباد آئے ہوئے تھے۔ راشد نے انہیں بوٹ کلب سکندرآباد میں دعوت دے رکھی تھی۔ شاذ اور راشد کے ساتھ میں بھی تھا۔ ابھی محفل کا رنگ جمنے بھی نہ پایا تھا کہ راشد نے کہا۔

’’شاذ تم میں ایک قباحت یہ ہے کہ تم اپنی غزلیں گوانے کے لیے موسیقاروں کے پاس وقت بے وقت پہنچ جاتے ہو۔ یہ تمہارے مرتبے کے خلاف ہے۔ شاعر کو ان باتوں سے بے نیاز ہونا چاہیے۔ ‘‘

’’چونکہ تمہاری غزلیں کوئی نہیں گاتا۔ اس لیے تمہیں اس بات کا دکھ ہے۔ ‘‘

’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ‘‘

’’بہت فرق پڑتا ہے۔ جس شاعر کی غزل بیگم اختر گائے۔ جسے راستہ چلتے چلتے لوگ ’’کب تک میرے مولا‘‘ کہہ کر پکارے۔ جو ہند و پاک کے ہر بڑے اور اہم پرچے میں اہتمام سے چھپتا ہو، جسے بڑے بڑے مشاعروں میں مدعو کیا جاتا ہو اس محفل میں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے کوئی بھی نہیں ہے۔ میں یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہوں۔‘‘ شاذ کا پارہ چڑھ گیا تھا۔ اکبر ٹکر ٹکر شاذ کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے وہ کہہ رہے ہوں۔ یہ کس جگہ آ کر پھنس گئے۔

میری طبیعت بھی کچھ مکدّرسی ہو کر رہ گئی تھی۔ شاذ پر جب اپنی بڑائی کا بھوت سوار ہو جاتا ہے تو دنیا کا بڑے سے بڑا عامل بھی اس بھوت کو اپنی گرفت میں لے نہیں سکتا۔ جب تک خود شاذ اسے اجازت نہ دے۔ پھر وہاں تو کسی بھی عامل یا جادوگر کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ چند قریبی ساتھی تھے جو وقت کاٹنے کے لیے کلب آ گئے تھے۔ لیکن مقام اور مرتبے کی خود ساختہ چکّی میں پس کر رہ گئے۔

(ماخوذ: خاكے — عوض سعید)