دکن، شروع ہی اردو کا گہوارا رہا ہے۔ بہمنی، قطب شاہی ادوار میں اردو نے ارتقائی مراحل طے کیے تو آصف جاہی خاندان کے حکم رانوں نے اردو زبان و ادب کی خوب سرپرستی کی۔ اسی دکن کے نصیر الدّین ہاشمی علم و ادب کی دنیا میں ایک مؤرخ، محقّق اور ماہرِ دکنیات مشہور تھے۔ دکنی ادب و ثقافت کا شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہوگا جس پر نصیر الدّین ہاشمی نے قلم نہ اٹھایا ہو۔
نظام دکن میر محبوب علی خان کے دور میں ریاست کی سرکاری زبان فارسی سے اردو کر دی گئی تھی جس کی بدولت سرکاری محکموں کے علاوہ تعلیمی اداروں میں بھی اردو زبان کو فروغ ملا اور میر عثمان علی خان جو دکن کے آخری بادشاہ تھے، ان کے عہد میں جامعہ عثمانیہ اور دارُ التّرجمہ کا قیام عمل میں آیا جس سے مختلف علوم و فنون کی اردو زبان میں ترویج ممکن ہوئی۔ نصیر الدّین ہاشمی نے بھی سرکار عالیہ حیدرآباد سے وابستگی اختیار کی اور زبان و ادب کی خدمت میں مشغول رہے۔
نصیر الدین ہاشمی 15 مارچ 1895ء کو حیدرآباد کے محلہ ترپ بازار میں پیدا ہوئے۔ اصل نام محمد نصیر الدین عبدالباری تھا، لیکن نصیر الدّین ہاشمی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد القادر عالم دین ہونے کے ساتھ ریاست حیدرآباد کے سرشتہ عدالت میں منصف اور رجسٹرار بلدہ تھے۔ نصیر الدّین نے گھر پر ہی ابتدائی اور ضروری تعلیم حاصل کی۔ قرآن اور دینیات کے علاوہ اردو، فارسی، ریاضی اور خطاطی سیکھی اور بعد میں مدرسہ دارالعلوم میں داخلہ لیا اور منشی اور مولوی عالم کے امتحان پاس کیے۔ مدرسہ دار العلوم میں امجد حیدر آبادی کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان سے تاریخ، فلسفہ، ریاضی اور عربی کا درس لیا کرتے تھے۔ جامعہ عثمانیہ سے انگریزی کے ساتھ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ‘انجمن ثمرةُ الادب’ کے سیکریٹری کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔
ہاشمی صاحب کو بچپن ہی سے مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ ناول، سفرنامے، تاریخ اور سوانح کی سیکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا۔ متعدد ملازمتیں کیں اور معاش کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے علم و ادب سے متعلق سرگرمیاں اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ نصیر الدین ہاشمی کی تصنیف ‘تاریخ عطیاتِ آصفی’ اسی زمانے کی یادگار ہے۔ ان کی کتاب دکن میں اردو شائع ہوئی تو اس کے بعد ایک سال کے لیے ان کو انگلستان بھیج دیا گیا تاکہ وہاں دکنی ادب کا مزید مواد فراہم کرسکیں۔انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور فرانس کے مختلف شہروں میں اس سلسلے میں قیام کے دوران اپنا کام مکمل کرکے وطن لوٹے اور یہاں 1950ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔
اس دوران نصیر الدّین ہاشمی نے زیادہ تر تحقیقی کام کیا۔ وضاحتی فہرستیں مرتب کیں۔ سوانح اور تواریخ کے علاوہ دکن کی شاعرات پر کتابیں لکھیں۔ قدیم شعراء کی سوانح اور ان کے ادبی کارنامے لکھے۔ نصیر الدین ہاشمی کا سب سے اہم کارنامہ ‘مثنوی کدم راؤ پدم راؤ’ متن کی دریافت ہے۔ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا مخطوطہ جو دنیا بھر میں اس کتاب کا واحد نسخہ ہے، عمر یافعی کی ملکیت تھا اور 1949ء میں ان کے ذخیرۂ کتب کے ساتھ انجمن ترقیٔ اردو آ گیا تھا۔ یہ وہی نسخہ تھا جو ایک زمانے میں حیدرآباد دکن میں لطیف الدّین ادریسی کے پاس تھا اور جس کا مطالعہ کر کے سب سے پہلے نصیر الدّین ہاشمی نے اکتوبر 1932ء میں ‘معارف’ اعظم گڑھ میں ایک تعارفی مضمون ‘بہمنی عہد کا ایک دکنی شاعر’ کے عنوان سے قلم بند کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں اسی نسخہ کی مدد سے ڈاکٹر جمیل جالبی نے مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔
ہاشمی صاحب کی مطبوعہ کتابوں میں دکن میں اردو، نجم الثّاقب، رہبرِ سفرِ یورپ، یورپ میں دکنی مخطوطات، ذکرِ نبیؐ، حضرت امجد کی شاعری، مدراس میں اردو، خواتینِ دکن کی اردو خدمات، فلم نما، تذکرۂ دارُالعلوم، تاریخِ عطیاتِ آصفی، حیدر آباد کی نسوانی دنیا، عہد آصفی کی قدیم تعلیم، تذکرۂ حیات بخشی بیگم، دکھنی ہندو اور اردو، دکھنی کلچر و دیگر شامل ہیں۔
حیدرآباد دکن کے اس تذکرہ نگار، محقق اور مصنّف کو کینسر کا مرض لاحق تھا اور وہ 26 ستمبر 1964ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھیں درگاہ حضرت سیّد احمد بادِ پا احمد نگر میں سپردِ خاک کیا گیا۔