مدارس بل ایکٹ بن چکا، فوری گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، وفاق المدارس

مدارس بل ایکٹ بن چکا، فوری گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، وفاق المدارس

اسلام آباد: وفاق المدارس نے مطالبہ کیا ہے کہ مدارس رجسٹریشن بل ایکٹ بن چکا ہے لہٰذا فوری گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔

معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی کی زیر صدارت وفاق المدارس کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس نے اتحاد تنظیمات مدارس کے فیصلوں اور مؤقف کی توثیق کر دی اور ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمعہ اجتماعات، ختم بخاری اور مدارس کے سالانہ پروگراموں میں مؤقف سے آگاہ کیا جائے گا۔

وفاق المدارس نے کہا کہ مدارس کے معاملات میں رکاوٹیں اور تاخیری حربے قابل قبول نہیں لہٰذا جملہ مسائل کو فی الفور حل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: عطا تارڑ نے مدارس رجسٹریشن بل پر صدر کے اعتراضات کو درست قرار دے دیا

اجلاس میں سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان کو پارلیمنٹ میں مدارس کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔

مجلس عاملہ نے کہا کہ مدارس کی آزادی کا ہر قیمت تحفظ کیا جائے گا اور کسی قسم کی ڈکٹیشن منظور نہیں، تمام حقیقی بورڈز اور تنظیمیں ایک پیج پر ہیں، مؤقف تسلیم نہ ہوا تو تمام مکاتب فکر کی باہمی مشاورت سے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

اجلاس میں مولانا انوار الحق، مولانا محمد حنیف جالندھری، مفتی سید مختار الدین شاہ، مولانا سعید یوسف، مولانا عبیداللہ خالد، مفتی عبدالستار، مولانا امداد اللہ اور مولانا حسین احمد نے شرکت کی۔

مولانا زبیر صدیقی، مولانا صلاح الدین، قاضی نثار، ناظم دفتر مولانا عبدالمجید اور دیگر بھی موجود تھے۔ مجلس عاملہ نے تعلیمی اور امتحانی امور کے حوالے سے بھی متعدد فیصلے کیے۔

قبل ازیں، مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مدارس رجسٹریشن بل کو دوبارہ پارلیمنٹ نہیں لایا جا سکتا، رویہ بدلیں ورنہ فیصلے میدان میں ہوں گے، بل پر ایک بار اعتراض کے بعد صدر کو دوبارہ ایوان کو بھیجنے کا حق نہیں، آئین کہتا ہے صدر کسی بل پر دس دن تک دستخط نہیں کرتے تو وہ ایکٹ بن جائے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس کی آزادی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ملک میں شدید ناراضی پائی جاتی ہے کوشش کر رہے ہیں تلخی کی طرف نہ جائیں، حالات بگاڑ کی طرف نہ لے جائیں، رویہ تبدیل نہ ہوا تو فیصلے ایوان نہیں میدان میں ہوں گے، آپ 100 سال تک مدارس کی رجسٹریشن نہ کریں، مدارس تو چلیں گے، آپ رجسٹریشن نہیں دیں گے تو کیا مدارس بند ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس ایوان کی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں لیکن آئینی ذمہ داریاں بھی یہ ایوان نبھا رہا ہے، اس سے قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے چھبیسویں آئینی ترمیم پاس کی، یوں سمجھیں کہ وہ اتفاق رائے کے ساتھ تھا، لیکن ایک بڑی پارٹی نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2004 میں مدارس کے حوالے سوالات اٹھائے گئے، ان سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد قانون سازی ہوئی، کہا گیا کہ دینی مدارس محتاط رہیں گے کہ شدت پسندانہ مواد پیش نہ کیا جائے۔ خفیہ ایجنسیاں مدارس میں براہ راست جاتی تھیں۔ اس کے بعد 2010 میں دوبارہ معاہدہ ہوا، ہمارے نزدیک تو معاملات طے تھے لیکن اس کے بعد اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی، اور حکومت نے کہا کہ مدارس سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔