وزیر اعظم پاکستان نے افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کو امریکا کا جنونی عمل قرار دے دیا

اسلام آباد: وزیر اعظم پاکستان نے افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کو امریکا کا جنونی عمل قرار دے دیا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے خطے میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے افغانستان پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ ایک جنونی عمل تھا۔ عمران خان نے چند دن قبل الجزیرہ عربی کو ایک خصوصی انٹرویو دیا، جس میں انھوں نے جنوبی ایشیائی خطے کی صورت حال پر تفصیلی گفتگو کی، بالخصوص افغانستان پر امریکی مسلط کردہ بیس سالہ جنگ اور اس کے مضمرات کے حوالے سے اہم نکات اٹھائے۔

وزیر اعظم پاکستان نے ایک طرف جہاں افغانستان کے حوالے سے امریکی جنون کا ذکر کیا، وہاں کشمیر کے حوالے سے پڑوسی ملک بھارت کے جنون پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ افغانستان اور کشمیر میں انسانی بحران اور بہ طور پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ انتہائی معاندانہ بھارتی رویے کے تناظر میں عمران خان کے انٹرویو کا یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ دونوں ممالک امریکا اور بھارت پر جنونی حکومتوں کا قبضہ رہا۔

الجزیرہ عربی کی خاتون اینکر پرسن عُلا الفارس کو انٹرویو میں وزیر اعظم پاکستان نے واضح طور کہا کہ افغانستان پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ ایک جنونی عمل تھا، امریکا نے 20 سال تک قبضہ کیے رکھا، افغانستان میں جو کچھ ہوا اُس کے بعد امریکا اب صدمے میں ہے۔

بیس سالہ امریکی جنگ کے بعد پہلے پاکستانی وزیر اعظم نے افغانستان کے مسئلے کو انسانی بحران کے رُخ سے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جو باہر سے آئے ہوئے حملہ آوروں کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج اسلام آباد دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، اور افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس کی گہما گہمی عروج پر ہے۔

دنیا کے سامنے وزیر اعظم کی یہ تشویش بجا ہے کہ افغانستان کی بروقت مدد نہ کی گئی تو بڑا انسانی بحران جنم لے گا، اس بحران کے ذمہ دار امریکا اور اس کے اتحادی ہیں، جنھوں نے مل کر بیس سال تک اس ملک کو کھنڈرات میں بدل ڈالا ہے، اسی تناظر میں عمران خان بجا طور پر دنیا کے ان ممالک سے تباہ حال افغانوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس تشویش کی ایک اندرونی وجہ بھی ہے، اپنے انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، افغانستان کے ساتھ ہماری 2800 کلومیٹر کی سرحد ہے، وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں استحکام پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے، موجودہ صورت حال میں افغانستان میں بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔

پاکستان پوری قوت کے ساتھ افغانستان کے حالیہ مسئلے کودنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کے سامنے بھی رکھ کر، بدلتے جنوبی ایشیا کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہے، جو فی الوقت نہ صرف افغانستان کے انسانی بحران سے نمٹنے میں مددگار ہو سکتا ہے، بلکہ طویل المدتی تناظر میں یہ خطے کی بدلتی تجارتی صورت حال کی جانب بھی ایک کھڑکی کھولنے کا نقطہ آغاز ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے دارالحکومت میں آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کی کانفرنس منعقد کی ہے، اور سیکیورٹی کے طور پر دو دن کی عام چھٹی کا اعلان بھی کیا گیا ہے، آج ہفتے کو اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے افغان وزیر خارجہ امیر تقی نے خصوصی ملاقات کر کے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

افغان وزیر خارجہ نے نئی افغان حکومت کے قیام کے بعد اسلامی ممالک کی کانفرنس ہونا خوش آئند قرار دیا، دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے کانفرنس کے انعقاد کی وجہ پر واضح گفتگو کی، کہا افغانستان نازک صورت حال سے دوچار ہے، ایسے میں دنیا کو زمینی حقائق سے آگاہ ہونا چاہیے، اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو انسانی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔

افغانستان پر بدترین جنگ مسلط کرنے والے امریکا کے اتحادی ممالک، جو شمالی امریکا سے لے کر یورپ تک پھیلے ہوئے ہیں، اب امریکا کی جانب سے افغان جنگ کو 2011 سے طول دینے کو ایک غلطی قرار دیے جانے کے باوجود، بدقسمت ملک میں درپیش انسانی بحران کے حوالے سے چپ سادھے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ امریکا افغان قوم کے 10 ارب ڈالر کے اثاثے بھی بحال کرنے کے لیے تیار نہیں، ایک ایسے وقت میں جب انھی کے ہاتھوں تباہ حال قوم کو اس کی اشد ضرورت ہے۔

ایسے میں اسلام آباد میں اسلامی ممالک کو اکٹھا کرنا پاکستان کی جانب سے ایک بہترین حکمت عملی ہے، اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا دنیا آج بھی مذہبی تناظر میں بٹی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں اسلام آباد پر جمی ہوئی ہیں، اور اس کانفرنس سے قبل الجزیرہ عربی کو ان کا خصوصی انٹرویو دنیا کے لیے ایک تازیانہ ہے، کہ اس کے جنون نے ایک غریب ملک کو کس طرح تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔