اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ ورکر ویلفیئر فنڈز کا اجرا آٹومیٹک ہوجانا چاہیے اس کے علاوہ ورکرز ویلفیئر فنڈز اور ای او بی آئی کا پیسہ کہیں اور استعمال نہیں ہوسکتا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ اسلام آباد میں ورکر ویلفیئر فنڈز کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے سندھ اور بلوچستان حکومت سے فنڈز کے حوالے سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔
اس کے علاوہ سندھ حکومت سے ہائی کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کرلی گئیں، سندھ حکومت بتائے کہ کتنے مقدمات ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں؟ اور کتنے فنڈز اکٹھے اور کتنے تقسیم کیے؟
سماعت کے دوران عدالت نے وفاقی حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے حکومتی مشینری کیوں کام نہیں کررہی ہے؟ یہ خوامخواہ ہم پر بوجھ پڑگیا ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ورکر ویلفیئر فنڈز کا اجرا آٹومیٹک ہوجانا چاہیے، پہلے ورکرز میں ویلفیئر فنڈز کا اجرا آٹومیٹک ہورہا تھا، حکومت نے آج تک کوئی ورکر کالونی نہیں بنائی، آفیسر پیسے دبا کر بیٹھے ہیں، سیروتفریح ہورہی ہے، سمینار میں شرکت کررہے ہیں اپنا کام نہیں کررہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کے پی حکومت نے کالونی بنائی لیکن ملکیت کےحقوق دیدیئے، کس قانون کے تحت ملکیتی حقوق دیئے گئے، کالونی صرف ورکر کے لیے،سروس سے ریٹائرمنٹ پر چھوڑنی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ افسران نے کام نہیں کرنا تو ہمارےمسئلے کا ایک ہی حل ہے، حکم جاری کردیتے ہیں کہ سب کمپنیاں سپریم کورٹ میں پیسے جمع کرائیں۔
ہم خود ورکرزمیں فنڈز تقسیم کر دیں گے ہم پورے محکمے کو ہی ختم کر دیں گے، پھرافسران بیٹھے رہیں، کیا افسران کو اس لیے بٹھایا گیا کہ تنخواہ لیں اور کام بھی نہ کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ورکرز کو چیک کے اجرا میں تاخیر کیوں کی جاتی ہے، چیک کے اجرا کے بعد ہی بچہ اسکول جاتا ہے، بچوں کی شادی ہوتی ہے،۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت نے ورکرز کے لیے کتنی ہاؤسنگ کالونیاں بنائیں، ہمیں تو کوئی کالونی نظر نہیں آتی، فنڈز سے ورکرز کے لیے ہاؤسنگ کالونیاں بنانی تھیں۔
سارا پیسہ پھنس گیا، افسران پیسہ ریلیز ہی نہیں کررہے، کیا صوبوں میں تقسیم ہونے والے پیسے کا آڈٹ ہوتا ہے، یہ پیسہ بھی دوسری اسکیموں کی طرح تو نہیں تقسیم ہوتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد کیا وفاق ورکرز ویلفیئر فنڈ کا پیسہ اکٹھا کرسکتا ہے، کیا اس آئینی نقطے کا کبھی جائزہ لیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کا کہنا تھا کہ سندھ کے علاوہ تمام صوبوں کا پیسہ وفاق اکٹھا کرتا ہے، سی سی آئی میں طے ہوا سارا پیسہ وفاق اکٹھا کرے گا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ہاں سوشل ویلفیئر کا نظام موجود ہی نہیں، ورکرز کی مدد کے لیے ورکرز ویلفیئر فنڈز ہی ہے، ورکرز ویلفیئرفنڈز، ای او بی آئی کا پیسہ کہیں اور استعمال نہیں ہو سکتا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت3ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔