فنِ خطّاطی میں جمال الدّین یاقوت مستعصمی کو ان کی مہارت اور کمال کی بدولت شش قلم خطّاط اور قبلۃُ الکتاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ دورِ خلافتِ عباسیہ کے متأخرین ماہر خطاط میں سے ایک تھے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یاقوت مستعصمی عربی زبان اور فارسی کے ماہر خوش نویس تھے۔
بغداد کے اس ممتاز خطّاط کا نام یاقوت اور آخری خلیفہ المستعصم باللہ کی نسبت سے وہ مستعصمی کہلاتے تھے۔ ان کا لقب جمال الدّین تھا۔ اگرچہ یاقوت کے حالاتِ زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دست یاب ہوسکی ہیں، اور ان کا سنہ پیدائش بھی معلوم نہیں، لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تیرہویں صدی عیسوی میں اماسیہ میں پیدا ہوئے جو آج ترکی کا حصّہ ہے۔ ترک ہی انھیں قبلۃُ الکِتاب کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
یاقوت دراصل خلیفہ کے ایک غلام تھے جن کی تعلیم و تربیت خلیفہ المستعصم باللہ کے زیرِ سایہ ہوئی اور یاقوت ایک عالم فاضل، شاعر اور خوش نویس بنا۔ اسے مدرسہ مستنصریہ کے کتب خانہ میں کتاب دار رکھا گیا۔ یاقوت نے ابن البواب کے دو شاگردوں سے خطّاطی کی بنیادی باتیں سیکھیں اور مشق کرتے ہوئے خلیفہ کا کاتب دِیوان مقرر ہوگیا۔ اس زمانے میں اسلامی فنِ خطّاطی اپنے عروج پر تھی اور بغداد ایسے علماء اور فن کے ماہروں سے بھرا ہوا تھا جن کے کام کو دنیا نے بعد میں تسلیم کیا۔ یاقوت اُن چھے خط کا ماہر تھا جن میں مہارت کا مظاہرہ کیے بغیر کوئی ماہر کاتب قرار نہیں پاتا تھا۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ وہ خطِ ثلث اور خطِ ریحان کا ماہر تھا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ فنِ کتابت اور تجویدِ خط کو ابن البواب سے آگے بڑھانے والوں میں سے ایک تھا۔ یاقوت کے فن کے نمونے (آثار) آج بھی دنیا کے چند عجائب گھروں میں موجود ہیں۔ استنبول، قاہرہ اور لندن میں اُس کے تحریر کردہ نسخہ ہائے قرآن بھی موجود ہیں۔ ایک نسخۂ قرآن بھارت کی مشہور خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری میں موجود ہے جس پر مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر کی مہریں ثبت ہیں۔ اسی طرح ایک نسخہ ذخیرۂ نوادرات سَر سالار جنگ میوزیم، حیدرآباد دکن میں موجود ہے جس پر مغل بادشاہ نورالدّین جہانگیر کی مہر ثبت ہے۔
یاقوت کا زمانہ سقوطِ بغداد 1258ء کی صورت میں بغداد اور اسلامی حکومتوں کے لیے بڑی تباہی لایا اور بغداد ہلاکو خان کی فوج کے ہاتھوں برباد ہوا، کتاب صحیفہ خوش نویساں میں لکھا ہے کہ قتلِ عام کے دوران لوگ اپنی جانیں بچانے کی خاطر بغداد سے فرار ہونے لگے تو یاقوت بھی ایک شکستہ مسجد میں جاکر چھپ گیا۔ قلم دوات تو ساتھ تھی، البتہ کاغذ پاس نہ تھا۔ دنیا کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے مگر یاقوت کو اپنی خطاطی کی مشق کی فکر تھی۔ اُس نے اِسی اثنا میں اپنی دستار کو کاغذ بنا کر اُس پر لکھنا شروع کر دیا۔ دستار کو ستونوں سے باندھ کر پھیلا لیا، کمال یہ دکھایا کہ دو بالشت موٹے حروف (اٹھارہ انچ کی موٹائی ) میں لکھنے شروع کر دیے اور اِس مہارت سے لکھا کہ کپڑے کی لکھائی اور کاغذ کی لکھائی میں فرق معلوم نہ ہوتا تھا۔ اِسی دوران اُس کے ایک شاگرد نے آکر کہا کہ بغداد میں قتل عام ہو رہا ہے، کشتیوں کے پشتے لگ گئے، جلدی سے یہاں سے بھاگ نکلیں، اپنی جان بچائیں تو یاقوت نے جواب دیا: ’’خاموش! میں نے ایسا لکھا ہے کہ تمام دنیا بھی نثار کر دی جائے تو یہ اس کی قیمت نہیں ہوگی، شہر بغداد اور یہ یاقوت کس شمار میں ہیں؟‘‘
سقوطِ بغداد میں جہاں ہلاکو خان نے عام لوگوں کو قتل کیا، وہیں بغداد کے کتب خانے برباد کیے اور قابل شخصیات کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن یاقوت بچ نکلا اور بعد میں اتابک علاء الدین الجوینی کے دربار سے وابستہ ہوا۔ اس دور میں یاقوت نے امرا کے بچّوں کو فنِ خطاطی کی تعلیم دی اور یاقوت کے پانچ شاگرد مشہور ہوئے۔
جمال الدّین یاقوت مستعصمی نے بغداد میں 1298ء میں وفات پائی اور امام احمد بن حنبل کے جوار میں ان کی تدفین کی گئی۔